شیر علی (صابر کوچی) ولد گل خان ولد نوروز خان بالاصل صوبہ لوگر کے ضلع ازرہ کے گاؤں گماران سے تعلق رکھنے والا جبکہ بالفعل صوبہ ننگرہار کے ضلع بٹی کوٹ کے گاؤں فارم چار مخروبہ کا رہائشی تھا۔
آپ نے ایک دیندار، جہاد پسند اور مجاہد گھرانے میں ۲۴ صفر ۱۴۱۰ ہجری بمطابق ۲۴ ستمبر ۱۹۸۹ء میں کوزہ پشتونخواہ میں اس فانی نیا میں آنکھ کھولی
ابتدائی دینی تعلیم اپنی گاؤں کی مسجد کے امام سے حاصل کی اور سکول میں نویں جماعت تک جدید تعلیم بھی حاصل کی۔ عموما آپ کا اٹھنا بیٹھنا علماء کے ساتھ ہوتا تھا اسی لیے آپ کی باتوں میں فصاحت و بلاغت موجود تھی۔
اعلیٰ اخلاق کے حامل اور خندہ پیشانی سے ملنے والے انسان تھے، نرم لہجے میں بات کرتے، مقابل کی بات کو بہت توجہ سے سنتے اور ہر کسی کو تسلی بخش جواب دیتے، باتوں میں چالاکی نہ دکھاتے، مجاہدین سے بے حد محبت کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں بہت ذہانت سے نوازا تھا، جنگ کے دوران ساتھیوں کا حوصلہ بڑھاتے تھے، صبر و استقامت کا پہاڑ تھے اور پیچھے رہ جانے والے اور قیدی دشمن کے ساتھ انتہائی رحم کا معاملہ کرتے تھے۔ کمین (گھات) اور تعرض (دھاوا) کا کافی تجربہ رکھتے تھے۔ بہت حوصلہ مند تھے، کبھی کبھی انہیں داعشی اور اربکی ملیشیا فون کرتے، آپ ان کے چوٹ دار الفاظ کا مقابلہ اصلاحی باتوں سے کرتے، اور ہمیشہ ان سے امارت کی حقانیت بیان کرتے۔
عجیب عقیدے والے تھے، جنگ میں اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ انہیں فتح نصیب کی۔ اس وقت جب مجاہدین بہت کم تھے اور چھپے پھرتے تھے، اس بہادر جوان نے پہلی بار ضلع مومند درہ سے مربوط علاقے باسول میں دو چوکیوں پر قبضہ کر کے دشمن پر کاری ضرب لگائی اور اس سے مجاہدین کے حوصلے بہت بلند ہو گئے۔۔ پھر مجاہدین نے شجاعت اور بہادری کے ساتھ دشمن پر کھل کر تند تو تیز حملے کیے جس کے دوران ضلع بٹی کوٹ کے علاقے فارم چار میں ایک گھات کے دوران کرائے کی انتظامیہ سے ایک رینجر گاڑی پکڑ لی، اس سے بھی مجاہدین کے حوصلے بہت بلند ہوئے۔ انہوں نے طورخم جلال آباد مرکزی شاہراہ پر چیک پوائنٹ بنائے اور بعض اوقات اس راستے پر امریکہ اور ناٹو سپلائی کے قافلوں پر حملے بھی کرتے۔ انہوں نے پورا علاقہ دشمن کے لیے تندور میں تبدیل کر دیا تھا، اسی لیے دشمن نے اپنی پوری توجہ صابر کوچی کی جانب مبذول کر لی۔ پہلی بار ضلع مومند درہ سے مربوط علاقے ہزار ناؤ میں چیک پوائنٹ پر ہاتھ زخمی ہوا۔
داعشی ملیشیا سے آپ نے بہت سی جنگیں کیں، جب بٹی کوٹ میں داعشی نمودار ہوئے، تو سب سے پہلی جنگ ان کے ساتھ ڈاگہ کے علاقہ میں شہید صابر کوچی نے کی، اس جنگ میں صابر کوچی کے دو ساتھی شہید ہوئے۔
ان دنوں داعشی خوارج اسلام کے نام کا فائدہ اٹھاتے ہوئے خود کو مہدی کے لشکر سے منسوب کرتے تھے، اور اب تک امیر المؤمنین کی جانب سے ان کے ساتھ جنگ کا اعلان نہیں ہوا تھا۔ جنگ کے بعد وہ ضلع بٹی کوٹ کے گاؤں باریکاب کی کوزہ کلالوی مسجد چلے گئے، جہاں امارت کے عسکری کمیشن کے ارکان بھی موجود تھے۔ انہوں نے لاؤڈ سپیکر پر اعلان کیا کہ داعش کی قیادت خوارج کر رہے ہیں اور یہ سب خوارج ہیں، ان کے ساتھ کسی قسم کا تعاون نہ کیا جائے۔
پہلی بار انہیں کی طرف سے داعشیوں کو خوارج کہا گیا، اور اس کے بعد حقیقت سامنے آ گئی اور یہ ان کی کرامت کہی جا سکتی ہے۔ وہ پہلے جوانمرد تھے جنہوں نے دیگر مجاہدین کے تعاون کے بغیر صرف اپنے گروپ کے ساتھیوں کے ساتھ مل کر لاجپور سے چاردہی تک کا تمام علاقہ داعشی ملیشیا سے چھین لیا۔ اپنے گروپ کے ساتھیوں کی مدد سے داعشیوں کے خلاف اوّلین خط یا جنگی صف قائم کی۔ ایک قوی جنگ کے بعد مذکورہ علاقہ داعشیوں نے پکڑ لیا۔ آپ نے دوسرا خط انبار خانہ میں بنایا، ایک اور قوی جنگ کے بعد یہ علاقہ بھی داعشیوں کے ہاتھ چلا گیا، اس وقت صابر کوچی پر خوارج اور کرائے کی ملیشیا کی جانب سے علاقہ تنگ پڑ گیا۔ تب ایک ساتھی کے توسط سے ٹیکٹیکل پسپائی اختیار کرنے اور مذکورہ علاقہ چھوڑنے پر انہیں مجبور کیا گیا۔ اس لیے وہ اپنے آبائی صوبے لوگر چلے گئے۔
وہاں انہوں نے صرف اتنا ہی وقت گزارا کہ خوارج کے خلاف ساتھیوں کو منظم کرسکیں۔ اسی عرصے میں امیر المؤمنین کی جانب سے شیوخ کے مشورہ سے داعش کو خوارج قرار دیا گیا اور ان کے خلاف جنگ کا فتویٰ صادر کر دیا گیا۔ شہید صابر کوچی بہت بے تابی کے ساتھ دیگر مجاہدین ساتھیوں کے ہمراہ ننگرہار کی طرف روانہ ہو گئے۔ ضلع بٹی کوٹ کے علاقے فارم دو پہنچے۔ ان کی آمد پر داعش میں خوف و ہراس پھیل گیا کیونکہ ان کے ساتھ انفرادی جنگوں میں بھی داعشی بہت خوفزدہ ہوئے تھے اور اس بار دیگر مجاہدین کی مدد اور امیر المومنین کی جانب سے فتویٰ نے داعشیوں کی نیندیں حرام کر دی تھیں۔
فارم دو کے علاقے سے صابر کوچی تقبلہ اللہ نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ، جبکہ ضلع لعل پوری کے علاقے چکنوری کیجانب سے حاجی امین صاحب اپنے ساتھیوں کے ہمراہ داعشیوں کے خلاف مغرب کے بعد سے جنگ شروع کر دی۔ صبح تک لاجپور، مشوانی، چاردہی، غازی آبادگری، تکیہ انبار، خانہ گڑھ باوہ، باسول، ہزار ناؤ، غزگئی، گردی غوث اور دیگر علاقوں پر قبضہ کر لیا۔ طورخم جلال آباد مرکزی شاہراہ کے ساتھ تمام علاقہ خوارج سے پاک کر دیا گیا، اس وقت شہید صابر کوچی، حاجی امین جان صاحب اور ضلع کے قائم مقام کمانڈر کی میٹنگ جاری تھی، تاکہ اس علاقے میں پھر سے امارت اسلامیہ کے ذمہ داران منتخب کیے جائیں، کہ یہ لوگ امریکی ڈرون حملے کی زد میں آ گئے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے قائدین بچ گئے، دو مجاہدین اور ایک چھوٹا بچا شہید ہو گیا۔
شہید صابر نے ایک رات خواب دیکھا تھا کہ انبار خانہ میں داعشی مارے گئے ہیں اور یہ جوانمرد وہاں پاس بیٹھا ہے۔ یہ خواب حقیقت میں بدل گیا اور داعشیوں کو اللہ تعالیٰ کی مدد و نصرت سے تہس نہس کر دیا گیا۔
اس ضلع سے آگے انہوں نے ضلع روداتو کے لیے منصوبہ تشکیل دیا، تاکہ اسے بھی داعشی ملیشیا سے پاک کیا جا سکے۔ اس وقت داعش نے پھر سے بٹی کوٹ پر کاروائی کا منصوبہ بنایا۔
شہید صابر دیگر قائدین کے ساتھ مشورے میں مصروف تھے، مجاہدین پوری تیاری کے ساتھ فارم چار کے علاقے میں اکٹھے ہوئے تھے، فجر کی اذانیں ہو رہی تھیں اور اس وقت داعشی ملیشیا کی ترصد کی گاڑی، جس میں سپرغئی نامی ایک داعشی موجود تھا، بڑو کے علاقے کی جانب سے آئی، اس گاڑی کو مجاہدین نے جنگی چال کے طور پر کچھ نہیں کہا اور ایسے ہی جانے دیا۔ جب یہ گاڑی ضلع بٹی کوٹ میں داخل ہوئی تو وہاں مجاہدین گھات لگائے بیٹھے تھے۔ ضلع میں داخل ہوتے ہیں مجاہدین نے اسے زندہ گرفتار کر لیا۔ اور اس کے بعد دو کاریں جن میں خوارج کے بڑے بڑے قائدین موجود تھے، بڑو کے علاقے کی جانب سے آئیں، جبکہ مجاہدین فارم چار کے علاقے بڑوک میں صابر کوچی تقبلہ اللہ کی قیادت میں گھات لگائے بیٹھے تھے۔
یہ گاڑیاں اس مقام پر سورج نکلنے کے وقت پر پہنچ گئیں اور ایک سخت گھات کی زد میں آ گئیں اور اس میں موجود تمام داعشی مارے گئے۔ ان قائدین کے مارے جانے سے یہ گروہ وہاں زوال کا شکار ہو گیا اور دس دنوں کے بعد مجاہدین کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی خصوصی نصرت کے ساتھ روداتو ضلع بھی فتح ہو گیا۔
کچھ وقت گزر جانے کے بعد قائدین کے حکم پر شہید صابر کوچی تقبلہ اللہ ضلع حصارک چلے گئے، جہاں اللہ تعالیٰ کی خصوصی مدد و نصرت سے آٹھ چوکیاں فتح کر لیں۔ بالآخر رمضان المبارک کے آخری عشرے میں جب وہ عید الفطر اپنے گھرانے اور ساتھیوں کے ساتھ منانے کے لیے جا رہے تھے کہ ضلع خوگیانو سے مربوط علاقے ہاشم خیل کے ندی نالے میں ۳ جولائی ۲۰۱۶ء سہ پہر ۳ بجے امریکی ڈرون حملے میں پانچ دیگر مجاہدین ساتھیوں کے ہمراہ شہادت کے عظیم مقام تک پہنچ گئے۔
نحسبه کذالک والله حسیبه