رویٹرز نیوز ایجنسی نے اپنی حالیہ رپورٹ میں لکھا ہے کہ داعش خراسان کی قیادت پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں سرگرم ہے۔
پاکستان اور داعش خراسان کے درمیان میں دوستانہ تعلقات ایک حقیقت ہے اور اسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ پاکستان اس لیے داعش کے ساتھ کھڑا ہے تاکہ ایک طرف افغانستان کا امن خراب ہو جائے اور دوسری طرف امارت اسلامیہ کی حکومت اور قائدین پر دباؤ ڈالا جائے۔ پاکستان جو داعش کو بطور ہتھیار استعمال کر رہا ہے اس حوالے سے پچھلے عرصے میں پاکستان کے سابق نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے بھی واضح انداز میں کہا کہ:
"اگر اسلام آباد داعش کو پناہ دے اور اس کی مدد کرے تو پھر کابل کو کیسا محسوس ہوگا؟”
یہ صرف ایک نعرہ نہیں بلکہ ایک حقیقت ہے۔
یہ تب ہوا جب افغانستان کا اقتدار امارت اسلامیہ کے ہاتھ آیا، داعش بری طرح کچل دی گئی اور افغانستان میں اس کے لیے محفوظ پناہ گاہیں باقی نہ بچیں۔ اس خارجی گروہ کی قیادت کی سطح کی اہم شخصیات ماری گئیں اور اس کی جڑیں خشک ہو گئیں، تو یہ گروہ پاکستان فرار ہونے پر مجبور ہو گیا اور پاکستانی فوج اور انٹیلی جنس کے گیسٹ ہاؤسسز میں مہمان بن گیا اور پھر وہاں سے پاکستانی فوج اسے افغانستان کی موجودہ حکومت پر دباؤ ڈالنے کے لیے استعمال کر رہی ہے۔
اگر کوئی ملک خود داعش یا کسی اور دہشت گرد گروہ کو پناہ دینے اور اس کی مدد کرنے کی بات کرتا ہے، یا دیگر ملکوں کو اس گروہ کے حملوں کے ذریعے دباؤ میں لاتا ہے، تو پھر وہ اپنا الزام دوسروں کے سر کیوں ڈالتا ہے اور عالمی سطح پر شور کیوں مچاتا ہے کہ ہمیں افغانستان کی جانب سے دہشت گردی کا خطرہ لاحق ہے، یا ہم دہشت گردی کے حملوں کا شکار ہیں؟
پاکستان کی اس طرح کی پالیسی انہتائی مضحکہ خیز ہے کہ اپنے دہشت گردوں کو تربیت بھی دیتا ہے اور الزام بھی افغانستان پر لگاتا ہے۔ کیونکہ پچھلے کم و بیش چالیس سال میں خطے کے ممالک اور دنیا کو یہ معلوم ہو چکا ہے کہ دہشت گردی کے اصل گڑھ کہاں ہیں اور کہاں سے استعمال ہو رہے ہیں۔ اسی لیے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو اب یہ واضح ہو چکا ہے کہ افغانستان کی سرزمین سے ہمیں کوئی خطرہ نہیں اور خود جو بائیڈن نے اس کا اعتراف کیا ہے کہ افغانستان میں کوئی دہشت گرد گروہ موجود نہیں اور خطے اور دنیا کے دیگر ممالک کو افغانستان کی طرف سے کوئی خطرہ لاحق نہیں!
یہ ایسے وقت میں ہے جب پاکستان اور متعدد دیگر ممالک نے بھی افغانستان سے دہشت گردی کے خطرات کی موجودگی پر تشویش کا اظہار کیا ہے، اس دعوے کو امارت اسلامیہ نے ہمیشہ بے بنیاد قرار دیا ہے۔ امریکہ نے ایسے وقت میں افغانستان میں دہشت گردوں کی موجودگی کے حوالے سے تشویش کا اظہار کیا ہے جب چند ہفتے قبل تھامس ویسٹ نے پاکستانی حکام سے گفتگو کے دوران واضح طور پر کہا کہ دہشت گردی کے خلاف ہم پاکستان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ پاکستان ماضی کی طرح ایک بار پھر افغانستان کے استحکام اور خوشحالی کے خلاف منظر نامے پیش کر رہا ہے اور چاہتا ہے کہ اس ذریعے سے اپنے مذموم مقاصد کا حصول ممکن بنا ئے اور ایک بار پھر افغانیوں پر دہشت گردی اور بدامنی مسلط کر دے۔ حالانکہ ساری دنیا اچھی طرح جانتی ہے کہ دہشت گردی کا گڑھ پاکستان ہے اور ہمیشہ اپنے سیاسی اہداف کے حصول کے لیے دیگر ممالک کے خلاف دہشت گردی کو استعمال کرتا ہے لیکن امریکہ نے اس حوالے سے اپنی آنکھیں موند رکھی ہیں۔
امریکہ اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے ہر وقت متضاد دعوےکرتا رہتا ہے، ایک طرف اپنی پالیسی، پروگرام اور منصوبے کی بنیاد پر چاہتا ہے کہ امارت اسلامیہ پر کسی نہ کسی طرح دباؤ ڈالا جائے اور اپنے مطالبات تسلیم کروائے جائیں جبکہ دوسری جانب وہ ایسی باتیں کر رہا ہے کہ افغانستان میں دہشت گردی کا خطرہ اب بھی موجود ہے اور چاہتا ہے کہ دنیا کو دکھائے کہ ہمارے افغانستان یا امارت اسلامیہ کو تسلیم نہ کرنے کی سب سے بڑی وجہ وہاں دہشت گردوں کی موجودگی ہے، کیونکہ دنیا امریکہ سے سوال کرتی ہے، اور اگر وہ یہ بہانہ نہ کرے تو پھر اس کے پاس کیا جواب ہو گا؟