تاجکستانی خبر رساں اداروں نے فریدون شمس الدین کے بعد ماسکو حملے کے ایک اور حملہ آور کے بارے میں اس کے رشتے داروں اور ہمسایوں سے سنی معلومات کو نشر کیا ہے۔
ایشیا پلس نامی ایک تاجکستانی نیوز ایجنسی کے صحافیوں نے کروکس ہال کے حملے میں ملوث ۲۰ سالہ تاجکستانی شہری محمد صابر فیضوف کی گھرانے اور ان کے علاقے کے دیگر مکینوں سے سے ملاقات کی اور فیضوف کے بارے میں پات چیت کی۔
فیضوف کے ہمسایوں اور رشتے داروں نے صحافیوں کو بتایا کہ وہ ایک دین سے بے تعلق شخص تھا اور اس حملے سے قبل وہ روس کے شھر ایوانوو میں ایک حجام کی دوکان میں کام کرتا تھا
وائس آف امریکا تاجکستان سے بات کرتے ہوئے فیضوف کی والدہ نے بتایا کہ ان کا بیٹا مالی مشکلات کی وجہ سے دو سال قبل روس چلا گیا تھا اور وہاں حجام کا کام کرتا تھا، لیکن حملے سے قبل اپنی روزی سے خوش نہیں تھا اور کہتا تھا کہ یہ کم ہے۔ (روسی فیڈرل انٹیلیجنس ایجنسی نے اسی حملے میں ملوث ایک زیر حراست حملہ آور کی ویڈیو فوٹیج افشا کی ہے جس میں حملہ آور اس بات کا اعتراف کرتا ہے کہ ہر فرد کو اسے حملہ کرنے کے عوض دس لاکھ روبل دینے کا وعدہ کیا گیا تھا۔)
فیضوف کی والدہ سائرام فیضووا کے بقول ان کا بیٹا مذہبی نہیں تھا حتیٰ کہ نماز تک نہیں پڑھتا تھا۔
ضلع رودکی کے علاقے سرکیشتی (جو فیضوف کا آبائی علاقہ ہے) کی مسجد کے امام سید رحمان حبیبوف نے بھی فیضوف کی ماں کی باتوں کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ، "اس کے والد اور بھائی تو مسجد آتے تھے، لیکن اس کو کبھی نہیں دیکھا۔”
عبد العزیز عبدالممدوف اس سکول کے وائس پرنسپل ہیں جہاں سے فیضوف فارغ التحصیل ہوا۔ وہ کہتے ہیں، "مجھے یقین نہیں آتا کہ وہ داعش میں شامل ہو گیا ہوگا، کیونکہ اس نے سکول میں دینی تعلیم حاصل نہیں کی تھی اور وہ تو نماز بھی نہیں پڑھتا تھا۔”
نتیجہ:
خوارج کے جال میں زیادہ تر وہی لوگ پھنستے ہیں جو کم عمر، جذباتی اور دینی فہم سے تقریباً محروم ہوں اور فریدون اور محمد صابر کی طرح نماز تک سے ناواقف ہوں۔ خوارج کے پروپیگنڈا کا نشانہ بھی زیادہ تر وہی لوگ ہوتے ہیں جو اسلام سے لا علم ہوں تاکہ ان کو با آسانی اسلام کے نام پر یا روپیے پیسے کی لالچ دے کر ورغلایا جاسکے۔ یہی دین اور اسلام سے لاعلم نوجوان خوارج کے جال میں پھنستے ہیں، اپنا سیاہ ماضی بھلا دیتے ہیں اور پھر انہیں اپنے اور اپنے چھوٹے سے گروہ کے سوا باقی تمام مسلمان کافر اور واجب القتل نظر آنے لگتے ہیں۔