ہمارا ایمانی اور انسانی فریضہ ہے کہ ہم وقت کے شر پسند عناصر اور ان کے متعلق حقائق کو امت مسلمہ کے سامنے پیش کریں اور ان کے بارے میں فیصلے کا حق بھی امت مسلمہ کو دے دیں۔ آج اسلام دشمن کیڑے مکوڑے روز بروز بڑھتے جا رہے ہیں۔ برسوں سے یہ کوشش کفار کی جانب سے جاری ہے کہ کیسے امت مسلمہ کے درمیان یہ کینسر پیدا کرے۔ بہت سی کوششوں کے باوجود وہ پوری طرح سے کامیاب نہ ہو پائے اور نہ ہی کامیاب ہو سکتے ہیں ان شا، اللہ۔ لیکن داعشی خوارج نامی تاریک دل غلاموں کو کھڑا کرنے کے بعد عالمِ کفر نے کسی حد تک کامیابی کی دہلیز پر قدم رکھ دیا۔
داعش خود کو محافظین اسلام گردانتے ہیں حقیقت میں محافظین کفر ہیں اور یہ کفار کا ایک حربہ ہے جو وقتا فوقتا اپنی شکلیں بدلتا رہتا ہے، کبھی دھوئیں کی مانند دنیا میں ہر جانب پھیل جاتا ہے اور کبھی پھر سے غائب ہو جاتا ہے، لیکن درحقیقت یہ ایک کفری حربہ ہے جو مومنین اور کفر مخالف افراد کے خلاف بہت وقت تک کارآمد رہتا ہے۔ داعش نامی گروہ نے عراق اور شام میں ظلم و جبر سے فراغت کے بعد دنیا کے بہت سے علاقوں کو عذاب میں مبتلا کیا۔ افریقہ، نائجیریا، افغانستان، پاکستان، صومالیہ اور ایسے دیگر ممالک ہیں جو امریکی اور اسرائیلی(داعشی) منصوبوں کی وجہ سے انتشار کا شکار ہوئے۔ داعشی خوارج کے ساتھ دیگر ممالک (جو براہ راست کفار کے حمایت یافتہ ہیں) کی دوستی کی باتیں آج کی نہیں ہیں یہ بہت پرانی بات ہے۔ جس سال داعشی خوارج افغانستان کی حدود میں داخل ہوئے تو اس داخلے کی ابتداء انہوں نے اورکزئی کی جانب سے کی اور افغانستان میں اپنا ناپاک وجود لے آئے، اس کے بعد اورکزئی، تیراہ، باڑہ اور خیبر پختونخواہ کے دیگر علاقوں میں داعش کے مضبوط ٹھکانے فعال ہو گئے۔
اس سب کے تسلسل میں افغانستان میں داعش کا آنا اور پھر اسلامی امارت کی جانب سے ان کی شکست نے پاکستان کو بہت نقصان پہنچایا۔ ایک نقصان تو یہ تھا کہ داعشی خوارج جیسے وحشی درندے جنہیں وہ اپنے علاقوں میں جگہیں نہیں دینا چاہتے تھے، ان کے گلے پڑ گئے۔ دوسرا نقصان یہ ہوا کہ پاکستان کی خواہش تھی کہ دیندار طبقہ ان بدترین ظالموں سے بھڑ جائے اور ان کے جمہوری نظام کو حملوں سے امن مل جائے، لیکن داعش کو سنبھالنے کی وجہ سے نہ صرف یہ کہ پاکستان اس میں کامیاب نہیں ہوسکا بلکہ اس کے برعکس مالی و جانی نقصانات بھی اٹھانا پڑ گئے۔ آج داعش پاکستان کے بہت سے علاقوں میں آزادانہ گھومتے ہیں، مثلا، پختونخواہ کے علاقے (جسے پاکستان اپنی ملکیت گردانتا ہے لیکن درحقیقت پاکستان کا حصہ نہیں) پشاور میں بخشی پل، فقیر آباد، باڑہ، تیراہ، تیمر گرہ، اورکزئی، تبئی، گنج، لطیف آباد، قاضی کلی، اور پنجاب میں لاہور اور بعض دیگر علاقوں میں داعش کے مراکز ماضی کی نسبت اب بڑھ چکے ہیں کیونکہ اب پاکستانی حکومت ان کے ساتھ باقاعدہ تعاون کر رہی ہے۔ ۲۰۱۸، ۱۹ اور ۲۰ء میں پختونخواہ کے بعض علاقوں میں مہاجر مجاہدین کا داعش کے ہاتھوں نشانہ بننے کا مطلب یہ ہے کہ داعش نے وہاں اپنی موجودگی حکومت کے تعاون سے بڑھا دی ہے۔ داعش کے لیے بھرتی کے مراکز پاکستان کے تمام صوبوں میں ماضی کی نسبت بڑھ گئے ہیں حالانکہ حکومت اس سب سے باخبر ہے اور اس کے پاس معلومات ہیں، لیکن پھر بھی کسی ردّ عمل کے کوئی آثار نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستانی حکومت نے داعش کے ساتھ مل کر خطے کی سکیورٹی تباہ کرنے کے لیے کمر کس لی ہے، اسی طرح گزشتہ برس پاکستان داعش کے بعض ارکان کو افغانستان کی سرزمین میں داخل کرنا چاہتا تھا اس کی وجہ سے امارت اسلامیہ کی فوج سے پاکستانی فوجیوں کی جھڑپ بھی ہوئی، یہ خبر عالمی میڈیا پر بھی گردش کرتی رہی۔ اس سب کے ساتھ خان نامی داعشی کو گزشتہ برس پاکستان نے گرفتار کیا اور ان کے پاس ثبوت بھی تھے لیکن پھر بھی اسے باعزت بری کر دیا گیا، یہ وہ داعشی ہے جو رہائی کے بعد باجوڑ میں ہونے والے ہولناک حملے کا ذمہ دار تھا، شہاب المہاجر کی حالیہ معلومات سے بھی یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس خارجی نے پاکستانی حکومت کے پاس پناہ لے رکھی ہے، دیگر ایسے بہت سے داعشی قیدی امارت اسلامیہ کی جیلوں میں موجود ہیں جنہوں نے خود تسلیم کیا ہے کہ وہ پاکستان سے آئے اور یہ پاکستانی جمہوری ریاست سے ان کی حمایت کی دلیل ہے۔ گزشتہ برس ۳۱ دسمبر سکیورٹی اینڈ ریکنسائلیشن کمیشن کی ایک کانفرنس میں امارت اسلامیہ کے وزیر دفاع مولوی محمد یعقوب مجاہد حفظہ اللہ نے بھی یہ دعویٰ کیا کہ امارت اسلامیہ کے جیلوں میں بند داعشیوں کی اکثریت پاکستان اور تاجکستان سے تعلق رکھتی ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ داعش کے گلے کا پٹہ اب براہ راست یہودیوں کے ہاتھ میں نہیں اور نہ ہی کفار یہ چاہتے ہیں کہ ان کو براہ راست چلائیں، کیونکہ داعشی خوارج وہ نیچ غلام ہیں جو اسلام کے لبادے میں اسلام کا عظیم نقصان کرتے ہیں، اس لیے کفار خود بھی نہیں چاہتے کہ ایسے بدبخت غلاموں کو خود اپنے ہاتھ میں رکھیں اس لیے انہوں نے ان کو اپنے غلاموں کا غلام بنا دیا۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ امارت اسلامیہ کے اقتدار میں آنے کے بعد کفار نے بہت سے ایسے معاہدات کیے ہیں کہ اب وہ مزید افغانستان کے بارے میں سفاکانہ فیصلے نہیں کر سکتے، اس لیے اب وہ چاہتے ہیں کہ یہ جھوٹے وعدے دنیا کے سامنے سچے ہی رہیں اور کسی کو ان کے جھوٹ کا علم نہ ہو۔ تیسری وجہ شاید یہ ہو گی کہ امریکہ اور اسرائیل پہلے کی نسبت اب عالمی تنازعات میں زیادہ پھنس چکے ہیں اور اب ان کے لیے ممکن نہیں کہ داعشی وحشیوں کی، دیگر جنگوں کی مصروفیات کے ساتھ، براہ راست قیادت کریں اس لیے اب انہوں نے ان جہنم کے کتوں کا پٹہ اپنے غلاموں کے ہاتھ دے دیا ہے۔
الخوارج كلاب النار