خوارج ایک گمراہ فرقہ ہے جس نے اپنی پیدائش کے بعد مسلمانوں کے لیے فساد اور بدنامی کے سوا اور کچھ نہیں کیا اور اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ گمراہ فرقہ اس زمانے میں یہودیوں اور منافقین نے بنایا، تربیت دیا اور پروان چڑھایا۔
انہیں خوارج کیوں کہا جاتا ہے؟
ان کی ان کے ناموں کے ساتھ کیا نسبت ہے؟
"خوارج” یا "خارجی” فعل لازم یعنی خَرَجَ، یَخْرُجُ، خُرُوجاً سے ماخوذ ہے اور اس کا عمومی مطلب سرکشی ہے۔ اس لیے وقت کے حکمران کے مخالفین اور باغیوں کو بھی "خارجی” کہا جاتا ہے اس لیے تھوڑے سے فرق کے ساتھ شر و فساد کے گروہ کو بھی خوارج کے گروہ میں شامل کیا جا سکتا ہے۔
خوارج کہاں سے اور کیسے آئے؟ (ان کی نظر میں) ان کا مقصد کیا تھا؟
خوارج ایک تاریخی اصطلاح ہے جو حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی خلافت کے اختتام پر اور علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی خلافت کے دوران مسلمانوں کے درمیان سیاسی تقسیم کے نتیجے میں منظر عام پر آئی۔
انہوں نے ایک متحد گروہ کے طور پر اپنے ظہور کااعلان کیا، لیکن اس تکفیری گروہ کے نشانات و آثار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی مل سکتے ہیں۔
غزوہ حنین کے دوران جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ھوزان قبیلے میں مالِ غنیمت تقسیم کر رہے تھے، بنی تمیم قبیلے کا ایک شخص جس کا نام "ذوالخویصرہ تمیمی” یا "ھرقوص بن زھیر” تھا کھڑا ہوا اور بڑی بے ادبی سے اعتراض کیا اور کہا کہ: اے محمد! انصاف کرو!
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں فرمایا: تمہارے ساتھ پھر کون انصاف کرے گا اگر میں عادل نہ ہوں؟
اس وقت حضرت عمر رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور فرمایا: مجھے اجازت دیں کہ اس کی گردن اتار دوں۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے چھوڑ دو، اس کا ایک گروہ ہے، تم اپنی نمازیں اور روزے ان کی نمازوں اور روزوں سے کم تر سمجھو گے۔ لیکن وہ ان تمام عبادتوں کے ساتھ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر کمان سے نکلتا ہے۔
خوارج کی اصطلاح بعد میں کتاب و سنت کے ان مخالفین کے لیے استعمال کی گئی جنہوں نے جنگ صفین میں حضرت علی (رضی اللہ عنہ) کے خلاف بغاوت کی تھی اور اانتہائی متشدد اور سخت عقیدے کے ساتھ حرواء کے علاقے میں آباد ہوئے اور اس وقت ان کا یہ نام وقت کے برحق اور واجب الاطاعت خلیفہ کے خلاف بغاوت اور خروج کرنے کی وجہ سے پڑا۔ وہ ایک سخت گیر گروہ تھا جس نے جنگ صفین میں سب سے پہلے مسلمانوں کے شرعی اور قانونی خلیفہ امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ پر حکومت مسلط کی اور بعد میں ان کے خلاف کھڑے ہو گئے اور ان کی مخالفت کر دی۔
پہلے تو وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے، لیکن جب حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ تنازع کے حل کے لیے "حکم” بنانے کی بات ہوئی تو جنگ صفین میں انہوں نے بغاوت کر دی۔
ان کا ماننا تھا کہ "ان الحکم الا للہ” یعنی اللہ کے حکم کے آگے اور کسی حکم کی کوئی حیثیت نہیں۔ یہ ان کا نعرہ تھا اور ان کا کہنا تھا کہ معاویہ رضی اللہ عنہ سے جنگ ہونی چاہیے اور انہیں شکست دی جائے اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ صلح کا معاہدہ حرام اور ناجائز سمجھتے تھے۔
لیکن حضرت علی رضی اللہ عنہ نے خوارج کے خلاف ان کی تکفیر کرنے اور ان پر سختی کرنے سے منع فرمایا اور انسانی حقوق کی پوری رعایت اور احترام کرتے ہوئے فرمایا :
تمہارے تین حقوق ہمارے پاس محفوظ ہیں:
- ہم کبھی بھی تمہیں شہر کی مسجد میں نماز پڑھنے اور ہماری مجالس میں شرکت سے نہیں روکیں گے۔
- جب تک تم ہمارے ساتھ ہو اس وقت تک ہم تمہارا معاش بیت المال سے ادا کریں گے۔
- ہم اس وقت تک تم سے جنگ نہیں کریں گے جب تک تم اپنی تلواریں ہمارے خلاف نکال نہ لو اور جنگ میں پہل نہ کر لو۔
لیکن زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ خوارج نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اس نرمی کا ناجائز فائدہ اٹھایا اور نھروان نامی جنگ شروع کر دی جس پر ہم آنے والی قسطوں میں بات کریں گے۔ ان شاء اللہ