کسی گروہ میں دراندازی اور نفوذ حاصل کرنا جسمانی موجودگی سے زیادہ قوی ہوا کرتا ہے، اور یہ مسئلہ تمام جنگوں میں اچھی طرح ثابت ہوا ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لشکر میں منافقین کے دو گروہ گھس آئے تھے:
- روافض: عبد اللہ بن سبا یہودی کی قیادت میں
- خوارج: عبد اللہ بن وھب راسبی کی قیادت میں
یہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لشکر میں چند محدود لوگوں میں سے تھے جنہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لشکر میں خود کو چھپا رکھا تھا۔
خوارج اصل میں حضرت علی کے لشکر میں مسلمان اور وفادار لوگوں میںسے تھے، لیکن منافق گروہوں کے نفوذ اور ان کے فریب اور دھوکہ دہی کی وجہ سے وہ گئی گروہوں میں بٹ گے اور خلافتِ اسلامیہ کے خلاف بغاوت کر دی۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے خوارج سے قرآن و سنت سے دلائل کی بنیاد پر رضامندی طلب کرنے کے بعد ایک گروہ نے تو حق کو تسلیم کر لیا اور بغاوت چھوڑ دی، لیکن دوسرا گروہ جس کا سربراہ عبد اللہ بن وھب راسبی تھا، مزید متشدد ہو گیا اور دن بدن بغاوت میں اضافہ کرتا گیا۔
چونکہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ جنگ صفین میں بھائی بھائی کے قتل کے تجربے سے گزر چکے تھے اس لیے وہ نہیں چاہتے تھے کہ ایک مسلمان کے ہاتھوں کسی دوسرے مسلمان کا خون بہے، اس لیے انہوں نے ہر ممکن طریقے سے صلح صفائی کی کوشش کی۔
انہوں نے حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ اور پھر حضرت حرب بن مرہ العبدی رضی اللہ عنہ کو مذاکرات کے لیے بھیجا، لیکن وہ لوگ انہیں خاطر میں نہ لائے اور اپنے غرور میں اس حد تک چلے گئے کہ اپنے وحشیانہ عمل سے حضرت حرب بن مرہ رضی اللہ عنہ کو شہید کر ڈالا اور جب حضرت علی شام کی طرف جا رہے تھے تو خوارج نے عبد اللہ بن خباب بن ارت رضی اللہ عنہ اور ان کی حاملہ بیوی کو بھی شہید کر ڈالا۔
حضرت علی نے ان کا تکفیری عقیدہ رد کر دیا اور آخر کار بات اس نہج پر پہنچ گئی کہ حضرت علی نے ان کے خلاف جنگ شروع کر دی، اور ان کو ختم کرنے کے لیے ایک بڑا لشکر تیار کیا جس کے نتیجے میں نہروان میں انہیں سخت ضربیں لگائی گئیں۔
اس جنگ میں حضرت علی کے ساتھ لشکر میں تقریبا اڑسٹھ (۶۸) ہزار ساتھی تھے اور خاص حکمت عملی کے ذریعے خوارج کو تباہ کر ڈالا گیا جن میں بہت کم ہی بچ پائے جو فرار پر مجبور ہو گئے، جبکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لشکر میں صرف ۷ افراد اللہ کی راہ میں شہادت پا گئے۔