پچھلی اقساط میں میں نے ذکر کیا کہ ابو بکر البغدادی کی سربراہی سے قبل داعش میں ایسے انحرافات نہیں پائے جاتے تھے۔ وہ مجاہدین اور دیگر فعال گروہوں کے ساتھ ایک صف میں شامل تھی، ایسا نہیں تھا کہ یہ اور مجاہدین ایک دوسرے کے مد مقابل کھڑے ہوں۔ لیکن ابوبکر بغدادی کی سربراہی میں اور بالخصوص ۲۰۱۴ء کے بعد اس گروہ کا انحراف (گمراہی) واضح ہو گیا۔
شام میں داعش اور جہادی گروپوں کے درمیان جنگ کا آغاز کیسے ہوا؟
اگر ہم اس معاملے کی جڑ سے پیروی کریں تو ہم ایک اہم مقام تک پہنچ پائیں گے۔ داعش اور جہادی گروہوں کے درمیان جنگ تب شروع ہوئی، جب بغدادی کے ساتھیوں نے رات کی تاریکی میں مجاہدین کے مضبوط ٹھکانوں پر حملہ کر دیا اور مجاہدین کو ناحق شہید کر دیا۔
یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہا جب ابن ملجم کے ان پیروکاروں نے شام کے ایک ایسے مشہور مجاہد کو شہید کر دیا جو دہائیوں تک افغانستان میں اور کئی دیگر جگہوں پر کفار کے خلاف برسر جنگ رہا، اور کفر کے سردار اسے شہید نہ کر پائے۔
داعش کے پیروکاروں نے، شیخ خالد السوری رحمہ اللہ کو، جنہیں شیخ ایمن الظواہری رحمہ اللہ نے مسئلے کے حل کے لیے ثالث کے طور پر مقرر کیا تھا، ۲۳ فروری ۲۰۱۴ء کو شہید کر دیا۔
شیخ خالد السوری کی شہادت کے بعد شیخ ابو محمد جولانی نے، جو جبہۃ النصرہ کے امیر تھے، ایک صوتی کلپ نشر کر کے داعش کے خلاف جنگ شروع کر دی، اور عراق کی سرحد کے ساتھ واقع صوبہ دیر الزور میں اس گروہ کے خلاف اپنی پہلی کاروائی کی۔
جبہۃ النصرہ کے ساتھ جنگ شروع کرنے کے بعد داعش نے دیگر جہادی گروہوں اور شام کے انقلابیوں کے ساتھ بھی اپنی دشمنی ظاہر کر دی۔
جاری ہے۔۔۔!