امر اللہ صالح جس کے امریکی انٹیلی جنس کے ساتھ قریبی گہرے اور پرانے تعلقات رہے ہیں، اب اس کوشش میں ہے کہ کسی طرح امریکہ اور اسرائیل کے پلان بی (داعشی خوارج) کو ایک بار پھر کام میں لائے، اس پر پہلے بھی یہ الزام رہا ہے کہ اس کے داعشی خوارج کے ساتھ قریبی تعلقات تھے، اور اسی نے انہیں باہر سے افغانستان درآمد کیا۔
اب جبکہ افغانستان میں صالح کی مخالف حکومت برسر اقتدار ہے، اس لیے وہ چاہتا ہے کہ ہر قیمت پر اس حکومت کے مخالف فریقوں کو (چاہے وہ پاکستان اور تاجکستان سے مدد حاصل کرنے والے کفر کے غلام خوارج ہوں یا غلام ابن غلام باغی) تیار اور مضبوط کرے، چاہے ایسا پاکستان کے ذریعے سے کیا جائے یا تاجکستان کے ذریعے، اس سے فرق نہیں پڑتا، بس وہ اپنے اس ہدف کو حاصل کرنا اور امریکی آقاؤں کو خوش کرنا چاہتا ہے۔
شہاب المہاجر جو کہ اب بلوچستان کے علاقے میں خوف کی حالت میں اور چھپ کر شب و روز بسر کر رہا ہے وہ بھی پہلے صالح کا خصوصی باڈی گارڈ رہ چکا ہے اس لیے اب آپ خود سمجھ سکتے ہیں کہ شہاب مہاجر جیسا شخص جو داعشی مردودوں میں بہت پرانا اور نمایاں فرد ہے وہ کیسے ایک امریکی غلام شخص کا باڈی گارڈ رہ سکتا ہے؟ اس کا بھی امریکی غلامی میں ساتھ شریک ہونا ناگزیر ہے۔
امر اللہ صالح کے حوالے سے میں یہاں اتنا کہوں گا کہ یہ وہ شخص ہے جس نے اپنے منہ سے دعویٰ کیا تھا کہ نیشنل سکیورٹی کی جیلوں میں پاکستانی انٹیلی جنس کے تفتیش کار آئے تھے اور قیدیوں سے تفتیش کی تھی، یہ داعشی خوارج کے پاکستان کی طرف سے پھیلاؤ کا دوسرا مرحلہ تھا، اور وہ چاہتے تھے کہ جیلوں میں بند داعشیوں کو جیل کے اندر اہم ذمہ داریاں دی جائیں اور یہ اس امید پر کیا کہ پاکستان اپنے اس کام میں کامیاب ہو جائے گا۔
موجودہ داعشی خوارج زیادہ تر پاکستان اور پھر تاجکستان جاتے ہیں، وہاں سے انہیں مالی امداد اور تربیت فراہم کی جاتی ہے اور پھر انہیں کبھی افغانستان اور کبھی دیگر ممالک کی جانب امریکہ کے مفادات کے تحفظ کے لیے بھیجا جاتا ہے۔