دنیا میں اسلام کے ظہور سے پہلے انسان ایک ایسے نہ ختم ہونے والے تغیر میں غرق ہو چکا تھا کہ اس سے باہر نکلنے کی ہر امید ختم ہو چکی تھی۔
قومی اور لسانی جنگیں جاری تھیں، برسوں تلک آپسی تنازعات کی وجہ سے ایک دوسرے کا قتل کرتے تھے، نوجوانوں کا خون بے جا خاک میں مل رہا تھا، ضعیف اور کمزور لوگ مغرور اور طاقتوروں کے غلام تھے اور جس طرح بھی ان کا دل چاہتا لوگوں کو چلاتے تھے۔
غلامی اور انسانوں کی خرید و فروخت عام سی بات تھی، جس کو عالمی سطح پر درست مانا جاتا تھا۔ اپنے آبا ؤ اجداد پر فخر و غرور زندگی کے سب سے بڑے مسئلوں میں سے تھا۔ بالآخر انسانیت اپنا رنگ و بو کھو بیٹھی اور قوموں کو خبر نہ تھی کہ کیا کریں، اور وہ کس مقصد کی خاطر زندہ ہیں؟ اور انہیں کیسے زندگی گزارنی چاہیے؟
لیکن اسلام کی آمد کے ساتھ سب کچھ بدل گیا، ہر پھول اپنی جگہ اگنے لگا اور اپنی خوشبو دوسروں تک پہنچانے لگا۔
مذکورہ سورج کے طلوع ہونے کے ساتھ ہی نوجوانوں کا خون دینِ اسلام کی سربلندی اور بڑے بڑے غاصبوں، ظالموں اور عالمی طاقتوں کے خلاف اللہ کی راہ میں لڑنے کے لیے بہنے لگا جو نہ صرف باعث ثواب تھا بلکہ اسلام کے پیروکار شہادت کی جانب پتنگوں کی مانند لپک رہے تھے۔
اسلام نے ہر اس چیز کا خاتمہ کر دیا جو انسانیت کے لیے مضر تھی اور یوں زمین پر برسوں تلک کے لیے خلافت قائم کی۔
اس سلسلے میں دشمنوں نے اور یہود و نصاریٰ کے ان کٹھ پتلی گروہوں نے، جنہوں نے اسلامی لبادہ اوڑھ رکھا تھا، اسلامی حکومت، مسلمانوں یا ان کفار کے خلاف، جنہیں ہماری اسلامی شریعت میں قتل اور ایذا دینے سے منع کیا گیا ہے بلکہ ان کی حفاظت کا حکم دیا گیا ہے، ایسے وحشیانہ اور اسلامی شریعت کی روح سے متصادم کام کیے کہ جس کا نتیجہ اور انجام لوگوں کو قرآن اور شریعتِ اسلامی سے متنفر کرنے اور داعیانِ اسلام کی دعوت کی راہ میں روڑے اٹکانے کے سوا اور کچھ نہ تھا۔
یہاں تک کہ عصرِ حاضر میں اسلام اور شرعی احکام سے دشمنی اور ان کو بدنام کرنے کی ذمہ داری داعش نامی ایک گروہ نے اپنے سر لے لی، اور روزِ اوّل سے اس گروہ نے ایسے کام اور ایسی حرکتیں کی ہیں کہ جس سے اسلام کی ساکھ کو نقصان پہنچا اور کافر قوموں کی نفرت کا باعث بنا۔
جبکہ اسلام عام کافروں، امن پسند اور غیر مسلح لوگوں کے قتل سے منع کرتا ہے اور یہ بات ثابت نہیں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے لوگوں سے جنگ کی ہو، لیکن داعش نے کسی عرب، افغان، کرد، سنی، شیعہ یا دیگر مسلمانوں، اسلامی اور سیکولر طبقوں میں سے کسی کو نہیں چھوڑا۔
داعش نے نہ صرف یہ کہ اسلام اور امت مسلمہ کی کوئی خدمت نہیں کی بلکہ اس نے مسلمانوں کے آسمان کو قہر و غضب کی گھٹاؤں سے ڈھانپ دیا ہے اور یہ ان لوگوں کی نظروں میں کہ جو اسلام اور اس کے احکامات سے لا علم ہیں نفرت کا ایک مؤثر عنصر بن چکا ہے۔
بلاشبہ اس گروہ کے حالیہ کرتوتوں نے براہ راست یا بلواسطہ سیکولر اور اسلام مخالف جماعتوں کے لیے بے جا اور بے لوث خدمات سر انجام دی ہیں کیونکہ وہ اس انتشار سے اپنا مفاد نکال رہے ہیں اور انہوں نے اپنے پراپیگنڈہ اور اسلام مخالف سرگرمیوں میں کئی گنا اضافہ کر دیا ہے۔ وہ لوگوں سے کہتے ہیں کہ اسلام کے پاس زندگی گزارنے کے لیے کوئی منظم منصوبہ نہیں ہے۔ اسلام آج کی دنیا میں قابل عمل نہیں ہے، اور اس کے پاس لوگوں کو قتل کرنے کے سوا اور کچھ نہیں اور اس کی مثال اور شواہد کے طور پر داعش کی کاروائیاں پیش کرتے ہیں تاکہ لوگ ان آمریتوں، کمیونسٹ حکومتوں اور سیکولرازم سے راضی ہو جائیں اور اسلام کو اپنے لیے اس طرح نجات کا ذریعہ نہ سمجھیں جس طرح ماضی میں تھا اور وہ عالمی طاقتوں کی غلامی میں سر جھکانے پر مجبور ہو جائیں۔
یہ دشمن کا ہدف ہے جو زیادہ تر اس گروہ کے ذریعے پورا ہوا ہے۔
آخر میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اسلام ابتدائی دور سے سے لے کر دنیا کے خاتمے تک چاہے جس کونے میں بھی ہو نہ کبھی دشمنوں کے بغیر رہا ہے اور نہ کبھی رہے گا بلکہ ہمیشہ دشمنوں کے خلاف لڑتا رہے گا۔ داعش کا شمار بھی ان گروہوں میں ہوتا ہے جو بلواسطہ یا بلاواسطہ طور پر حقیقی اسلام کی روح اور روح رواں سے دشمنی رکھتا ہے اور آج براہ راست امریکہ، مغرب، پاکستان، ایران، اور تاجکستان کے ذریعے مسلمانوں اور اسلامی اقدار کے خلاف کام کر رہا ہے۔
مذکورہ بالا ممالک اسی گروہ کو، جو اس وقت پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں بیٹھا ہے، اپنے علاقائی دشمنوں کے اور بالخصوص افغانستان کی اسلامی حکومت کے خلاف، جو کہ ایک نئی حکومت ہے اور دین اسلام کے دشمنوں کی خواہشات کے خلاف سرگرم ہے، اپے مذموم مقاصد کے حصول کے لیے ایک ٹول کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔
آج داعش خطے اور دنیا کے دیگر ممالک اور بالخصوص افغانستان کے خلاف جنگ اور دشمنی کا ایک آلہ بن چکی ہے۔ وقتا فوقتا ان تینوں ممالک کی جانب سے تاجکستانی اور پاکستانی شہری پاکستان اور ایران کی جانب سے افغانستان داخل ہوتے ہیں یا دیگر ممالک میں بھیجے جاتے ہیں لیکن اپنے ہم فکر پیشروؤں کے بنائے ہوئے افغان عوام اور دیگر کے خلاف سابقہ منصوبوں کی طرح یہ پھر ناکام ہوں گے۔ ان شاء اللہ