شہید حبیب الرحمن ولد محمد الف شاہ ولد محمد شاہ صوبہ پکتیا ضلع احمد خیل کے گاؤں موشکی کے رہائشی تھے۔
آپ نے ۱۴۲۰ ھجری بمطابق ۱۹۹۹ء میں ایک دیندار اور جہادی گھرانے میں اس فانی دنیا میں آنکھ کھولی۔
شہید کو بچپن سے ہی دینی علوم میں دلچسپی تھی اور اسلامی جذبہ اور غیرت ان میں نمایاں تھا۔ آپ نے اپنے علم کی پیاس بجھانے کے لیے، دار الہجرت پاکستان کے شہر نوشہرہ کے مدرسہ دارالعلوم فیض القران پیر سباق شریف میں داخلہ لیا، اسی مدرسہ میں مشہور شخصیت، پیر طریقت حضرت مولانا قاری بشیر احمد مدنی صاحب سے دینی تعلیم مکمل کی اور وہیں قاری صاحب نے اپنے ہاتھ سے آپ کو دستار فضیلت پہنائی۔
عمر خالد شہید تقویٰ کی علامت اور نبوی اخلاق کی مالک شخصیت تھے، اپنے تعلیمی اور جہادی ادوار میں اپنے ساتھیوں کی بہت خدمت کیا کرتے، خصوصاً اساتذہ اور جہادی ذمہ داران کے امر کی بہت اطاعت کرتے اور علماء و مجاہدین سے خصوصی محبت رکھتے تھے۔
جہاد کی محبت ان پر اس قدر غالب آئی کہ کم عمری میں ہی جہاد کے لیے آستینیں چڑھا لیں اور جہادی جدوجہد کے لیے کمر کس لی۔
جہادی جدوجہد!
پہلی تشکیل:
عمر خالد شہید نے اپنی پہلی جہادی تشکیل اپنے گھر والوں سے چھپ کر کمانڈر خاورے کی قیادت میں صوبہ خوست کے ضلع صبری میں گزاری۔ اس تشکیل میں آپ نے دشمن پر مہلک حملے کیے، کئی تعرض (دھاوے) اور چھاپہ مار کاروائیوں میں بھرپور شرکت کی۔ دو ماہ کی تشکیل کے بعد پھر سے واپس اپنے گھر چلے گئے۔
دوسری تشکیل:
آپ نے دوسری تشکیل اپنے چچا کمانڈر نقیب اللہ نصرت شہید کے ساتھیوں کے ساتھ صوبہ پکتیا کے ضلع احمد خیل میں گزاری۔ آپ نے ضلع احمد خیل میں دشمن کے خلاف کئی چھاپہ مار کاروائیوں میں شرکت کی۔ تشکیل کا وقت پورا ہونے کے بعد آپ پھر سے اپنے ساتھیوں کے ساتھ دار الہجرت چلے گئے۔
دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ عسکری تعلیم بھی حاصل کی۔ گروپ کمانڈر مولوی زاہد اللہ مدنی صاحب کی رہنمائی میں معسکر حضرت عبیدہ ابن جراح رضی اللہ عنہ میں داخل ہوئے۔ آپ نے ساٹھ روز کی تربیت کے بعد بہترین درجے میں تربیت سے فراغت کی سند حاصل کی۔
معسکر سے فراغت کے بعد آپ اپنے گھر چلے گئے، اور چند روز بعد پھر سے دار العلوم فیض القران قرآن کریم کا دور کرنے کے لیے چلے گئے اور قاری محمد ناصر صاحب نامی استاد کے ساتھ قرآن کریم کا تین بار دور کیا۔
قرآن کریم کا دور مکمل کرنے کے بعد اپنے اصلی وطن افغانستان آ گئے، اپنے گاؤں موشکی کے دینی مدرسہ اور اس کے ساتھ منسلک مسجد میں رمضان المبارک میں تراویح میں قرآن کریم بھی ختم کیا۔
تیسری تشکیل:
صبح کا وقت تھا، ساتھی تشکیل پر روانہ ہو رہے تھے، عمر خالد شہید نے اپنی دینی و قومی ذمہ داری کی ادائیگی کے لیے اپنے والدین سے اجازت طلب کی، اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ خوشی سے تشکیل کے لیے روانہ ہو گئے۔ جب حقداری کے علاقے میں پہنچے، تو آپ اپنے ساتھیوں سے حوصلے، اطمینان اور جذبۂ جہاد کی باتیں کرنے لگے۔
درویش کی زبانی
کہتے ہیں کہ شہید اپنی جوانی کے اعتبار سے کافی کمزور معلوم ہوتے تھے لیکن زور و طاقت کے لحاظ سے اللہ تعالیٰ نے انہیں بہت قوت سے نوازا تھا۔ اس سفر کے دوران آپ بہت خوش اور مطمئن تھے، جیسے انہیں اپنی شہادت کی خوشخبری مل چکی ہو۔ جب صوبہ پکتیا کے ضلع احمد خیل پہنچے، تو وہاں پوری جوانمردی کے ساتھ کئی جنگوں میں حصہ لیا۔
پندرہ روز گزرنے کے بعد، صوبہ ننگر ہار میں فتنہ گر خوارج کے نمودار ہونے کی اطلاع ملی، اس وقت صوبہ پکتیا کے گورنر کی جانب سے حکم آیا کہ ہر گروپ سے چار لوگ داعشی خوارج کو ختم کرنے جانے کے لیے تیار ہو جائیں۔ اس وقت عمر خالد شہید نے اپنے سرپرست سے کہا کہ سب سے پہلے ان کا نام لکھیں۔ تب ان کا دیگر ساتھیوں کے ساتھ نام لکھ دیا گیا۔ عصر کے وقت صوبہ ننگر ہار کی جانب سفر شروع کیا اور چند روز میں صوبہ ننگر ہار پہنچ گئے۔ یہاں میرزا جان شہید کی قیادت میں کچھ روز سخت جنگوں میں حصہ لیا اور داعشیوں کے خلاف دن رات ایک کر دیا۔ پھر بالآخر ایک چوکی کو فتح کرنے کے بعد، خوارج کی جانب سے لگائی گئی ایک بارودی سرنگ (مائن) پر پاؤں آنے کی وجہ سے شدید زخمی ہو گئے، زخم بہت گہرے اور نازک تھے۔ آپ زخموں کی تاب نہ لا کر ۲۰۱۹ء میں شہادت کا اعلیٰ مقام پا گئے۔
نحسبھم کذالک واللہ حسیبہ