علامہ سیوطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
(لولا العلماء لکان الناس کالبهائم) اگر علماء نہ ہوتے تو لوگ جانوروں جیسے ہوتے، یعنی لوگوں کی زندگی جانوروں کی طرح ہوتی۔
علماء کرام لوگوں اور معاشرے کے لیے مشعلِ راہ کے مانند ہیں، جس معاشرے میں علماء نہیں ہوتے، یا علماء کے ساتھ ان کا تعلق نہیں ہوتا، وہ خیر کا معاشرہ نہیں ہوتا، لوگوں کو چاہئے کہ آخرت کی زندگی بنانے کیلئے علماء کی صحبت اختیار کریں اور ان کے ارشادات کے موافق زندگی گزاریں۔
علماء کی مسئولیت یہ ہے کہ لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے دین کی طرف دعوت دیں، انہیں منکرات سے روکیں، معاشرے میں امر بالمعروف ونہی عن المنکر بھی علماء کی مسئولیت ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
"الدین النصیحۃ” دین سراسر خیرخواہی ہے۔
علماء کو چاہیے کہ بہت ہی نرم لہجے میں اور اچھے طریقے سے لوگوں کو دعوت دیں، اور دعوت کے دوران نرم رویہ اختیار کریں، ایسے انداز میں لوگوں کو دعوت دیں، جس انداز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دی تھی۔
علماء کو چاہیے کہ معاشرے کو تباہ کرنے والے اختلافی امور، دشمنی اور حسد سے لازمی بچیں، دین کے ہر حکم کو معاشرے کے ہر فرد تک پہنچائیں، اگر معاشرے میں کوئی ایسا غلط فعل ہوتا ہو، تو بہت عقلمندی اور اچھے طریقے سے لوگوں کو اس سے منع کریں۔
افراط و تفریط سے گریز کیا جائے؛ کیونکہ ان کی شریعت میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ اگر معاشرہ دین کے بغیر رہا اور اس تک دعوت نہیں پہنچی تو اس کی ذمہ داری علماء پر عائد ہو گی۔
علمائے کرام کا فرض ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلاف امت کے راستے پر چلیں اور دین کے معاملے میں نہ کسی سے ڈریں اور نہ ہی کسی سے متاثر ہوں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
أَلاَ لاَ يَمْنَعَنَّ أَحَدَكُمْ هَيْبَةُ النَّاسِ أَنْ يَقُولَ بِحَقٍ إِذَا رَآهُ أَوْ شَهِدَهُ، فَإِنَّهُ لاَ يُقَرِّبُ مِنْ أَجَلٍ وَلاَ يُبَاعِدُ مِنْ رِزْقٍ أَنْ يَقُولَ بِحَقٍّ أَوْ يُذَكِّرَ بِعَظِيمٍ [رواه احمد، ابن حبان او ابن ماجه]
ترجمہ: "لوگوں کا خوف تمہیں سچ بولنے اور بیان کرنے سے نہ روکے، جب تم اسے دیکھو، کیونکہ یہ نہ اجل کو قریب کرتا ہے نہ ہی رزق کو دور کرتا ہے۔
ایک اور جگہ ارشاد فرمایا:
أَفْضَلُ الْجِهَادِ كَلِمَةُ عَدْلٍ عِنْدَ سُلْطَانٍ جَائِرٍ أَوْ أَمِيرٍ جَائِرٍ»
[ابو داود، احمد]
ترجمہ: ظالم بادشاہ کے سامنے حق کی بات کرنا افضل جہاد ہے۔
ایک عالم کی فکر اور نظریہ جامع ہونا چاہیے، ایک عالم کا نظریہ محدود نہیں ہونا چاہیے، اسے قومی، نسلی اور لسانی تعصبات سے کوسوں دور رہنا چاہیے۔
اس دور میں علمائے کرام کی خصوصی ذمہ داری نوجوان طبقے کا فکری ڈھانچہ بنانا اور اسلامی نظام کا دفاع و تحفظ ہے۔ اسلامی نظام کا دفاع اور تحفظ ہر عالم کو اپنا فرض سمجھنا چاہیے۔
کسی عالم کو لالچی نہیں ہونا چاہیے اور دنیا کے لالچ سے دور رہنا چاہیے، کسی عہدے یا منصب کے لیے نہیں بلکہ اپنے فرض اور خدمت کے لیے کام کرنا چاہیے، جس عالم کا مقصد اور نیت دنیا اور مادی اسباب ہوں اس کے لئے بجائے ثواب کے وبال بنتا ہے۔
آج اگر ہمارا معاشرہ اور شہری جاہلیت کی وجہ سے کہیں اسلامی نظام کے سامنے رکاوٹ بنتے ہیں تو اس جاہلیت کو دور کرنا علماء کی ذمہ داری ہے ۔لوگوں کو اسلامی نظام کی برکات سے مستفید ہونے کی ترغیب دینا اور ہر قیمت پر اس کا دفاع اور تحفظ کرنا بھی علماء کی ذمہ داری ہے۔