امریکہ جس نے افغانستان پر استعمار، حکمرانی، معدنی اور مالی وسائل کو لوٹنے، اسلام کی بنیادوں کو ختم کرنے اور اجتماعی قتلِ عام کی غرض سے حملہ کیا، اخراجات کیے، انتظامیہ تشکیل دی اور دیگر طرح طرح کے منصوبے عمل میں لائے تاکہ اپنے مذموم مقاصد حاصل کر سکے، لیکن کوئی نتیجہ حاصل نہ کر سکا۔
عراق و افغانستان میں بھاری جانی، مالی، لاجسٹک اور عسکری نقصان اٹھانے کے بعد، وہ اس جنگ کو جاری رکھنے کے لیے داعش بنانے پر مجبور ہو گیا۔ داعش نے خلافت اسلامیہ کے نام پر خرافات، مظالم اور بہت سے ایسے کام کیے کہ جو اسلام سے سراسر متصادم تھے اور اسے مشرق وسطیٰ، عراق اور شام میں متعدد شکستوں کا سامنا کرنا پڑا۔
داعش آغاز میں تو بہت جوش و خروش اور طاقت کے ساتھ منظر عام پر آئی، زیادہ تر علاقوں میں امریکہ کے مالی تعاون کے سہارے اپنے مراکز بنائے، لیکن انہیں زیادہ دیر قائم نہ رکھ پائی، قلیل وقت میں انہیں بھاری شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
افغانستان میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی تمام امیدیں، جمہوریہ کے خاتمے، امارت اسلامیہ کی حکمرانی، داعش کی کمزوری اور خود امریکہ کی شکست کے ساتھ دم توڑ گئیں۔ لیکن افغانستان پر پھر سے قبضے اور استعمار کی خاطر داعش کو مضبوط کرنے کے لیے جمہوری انتظامیہ کی طرح اسے ایک اور ساتھی کی تلاش تھی۔
پاکستان جو کہ انٹیلی جنس نیٹ ورکس کی شطرنج ہے، اپنے بڑھتے قرضوں کی ادائیگی اور افغانستان کے ساتھ ہمیشہ کے اختلافات کی وجہ سے داعش کی ٹریننگ کے لیے امریکہ کا اچھا پارٹنر بن گیا، دوسری طرف تاجکستان جو طویل عرصے سے کفر و استعمار کے زیر تسلط ہے، داعش کو افرادی قوت فراہم کر کے امریکہ کی ایک اور پراکسی بن گیا۔ ان تینوں ممالک کی کاوشوں سے داعش کی خراسان شاخ فعال ہوئی۔
خراسان میں داعش کی مالی معاونت، لاجسٹک سپورٹ، اور داعش کے ساتھ امریکہ کے خفیہ سیاسی تعلقات قائم کرنا امریکہ کی ذمہ داری ہے، افراد کی بھرتی، نوجوانوں کو داعش کی صفوں میں کھینچنا اور داعش کے لیے دعوت اور پراپیگنڈہ کی ذمہ داری تاجکستان کی ہے اور بھرتی ہونے والے افراد کی انٹیلی جنس، عسکری اور نظریاتی تربیت اور ان کا افغانستان میں دخول، پاکستان کی ذمہ داری ہے۔
اس مثلث کو بڑی سطح پر امریکہ اور نیٹو کے ذریعے سے تعاون فراہم کیا جاتا ہے، خراسان و افغانستان میں ہونے والے تمام جرائم، بم دھماکوں، قتل عام اور تباہی کی ذمہ داری انہیں کے سر ہے۔