چونکہ افغانستان ایک بہترین جغرافیائی محل وقوع کا حامل ہے، اور ہر سپر پاور کی خواہش ہوتی ہے کہ ایسی قیمتی جگہ کو اپنے زیر تسلط رکھنے کے لیے اور اپنے حریف دشمنوں کو دبانے کے لیے اس پر قبضہ کر لے۔ یہی وجہ ہے کہ افغانستان پر کئی بار دشمنوں نے حملہ کیا اور اسے فتح کرنے کے لیے دشمن نے انتھک کوششیں کیں۔
جیسا کہ واضح ہے کہ اس سرزمین پر پچھلی ایک صدی میں تین بار دشمن کی جانب سے حملہ ہوا۔ اس سرزمین نے تباہیاں، قتل عام اور ان گنت دیگر مصائب کا مشاہدہ کیا۔ لیکن ہر بار اس نے دشمن کے حملوں کو پسپا کیا اور اس سے آزادی حاصل کر لی۔
لیکن ہر بار شکست کے بعد بھی نیچ فطرت اور بے غیرت دشمن اپنی شیطانی فطرت سے باز نہیں آئے اور مختلف طریقوں سے انہوں نے اپنے عسکری اور سیاسی منصوبوں کو عملی جامہ پہنایا۔
آخری حملہ آور جن کی قیادت عصرِ حاضر کا طاغوت (امریکہ) کر رہا تھا، بیس سالہ جدوجہد اور افغان عوام کی انتھک قربانیوں کے بعد انتہائی ذلت اور بے شرمی کے ساتھ ملک سے فرار ہو گئے۔
لیکن اپنی پرانی عادت کے مطابق جب انہیں اپنی شکست کا یقین ہو گیا، تو مختلف منصوبے شروع کر دیے اور مجاہدین اور امت کے درمیان تفریق اور فاصلہ پیدا کرنے کی کوشش کی۔
وہ اس منصوبے میں کامیاب بھی ہوئے اور ماضی کی نسبت کہیں زیادہ خطرناک منصوبہ تیار کر لیا کہ جس کی آگ میں امت مسلمہ برسوں تک جلتی رہے اور ایسا انحطاط پیدا کر دیا کہ جس کے علاج کا تصور بھی ناممکن ہو۔ اس بار ان کا یہ منصوبہ داعش کے نام سے تھا۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ امریکہ اور نیٹو کے دیگر ممالک کبھی بھی امن اور اس ملک میں ایک خودمختار اور مقتدر اسلامی حکومت کا قیام نہیں چاہتے، کیونکہ ایسی حکومت کے آنے سے امت میں بیداری کے آثار نظر آنے لگتے ہیں اور وہ اپنے دشمنوں کی طرف متوجہ ہو جاتی ہے جس کے نتیجے میں ہر مسلمان یا تو ہجرت کرتا ہے یا اپنی سرزمین پر اسلامی نظام کا مطالبہ کرتا ہے اور اس کے حصول کے لیے مسلح جدوجہد شروع کر دیتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اس طرح کے حالات پیدا ہونے سے دشمن کے مفادات اور مقاصد کو شدید نقصان پہنچتا ہے۔
امریکہ کے عراق پر حملے اور اس کے بعد اپنی ناکامی کا ادراک کرنے کے بعد، اس نے وہاں ایک ایسے فتنے کے بیج بوئے جو کچھ عرصے بعد داعش (دولت اسلامیہ) کے نام سے منظر عام پر آیا اور اس نے وہ اہداف حاصل کر لیے جن کے لیے امریکہ نے بہت سے مسائل کا سامنا کیا لیکن پھر بھی حاصل نہ کر پایا۔
آخر کار اس فتنے کی آگ کے شعلے افغانستان تک پہنچ گئے اور انہوں نے کوشش کی اور کر رہے ہیں کہ اس حملے کو جاری رکھیں جس میں امریکہ ناکام ہو چکا تھا۔
درحقیقت امریکہ کی جگہ داعش کو مقرر کر دیا گیا جس نے برسوں تک اس امت کے مظلوم اور لاچار لوگوں کو آگ میں جھونکا۔
داعش نے بھی اپنے آقاؤں کے تمام مطالبات ایک وفادار غلام کی طرح تسلیم کیے اور مدارس، مساجد، یونیورسٹیز، تعلیمی مراکز اور عوامی مقامات کو تباہ کرنے کے علاوہ اور کچھ نہ کیا۔ اسی طرح عوام، علماء، شیوخ، اور وہ لوگ جنہوں نے ان کے خاتمے کی کوشش کی، انہیں شہید کیا۔ یہ وہ کام تھے جو امریکہ کرنا چاہتا تھا لیکن کر نہ پایا، اور داعش نے یہ کام اس کے لیے بہت آسانی کے ساتھ کر دیے۔
مستند اور دقیق ثبوت اور شواہد سے یہ بات ثابت ہو گئی کہ داعش امریکی منصوبہ ہے جسے امریکہ اپنے دشمنوں سے مقابلہ کرنے کے لیے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔
ہم اُس وقت کے سیاست دانوں اور ان کے ریٹائرڈ لوگوں کی چند باتیں ذیل میں ذکر کر رہے ہیں، لیکن ساتھ یہ بھی کہتے چلیں کہ یہ استدلال صرف ضروری دلائل پیش کرنے کے لیے ہے، نہ کہ یہ کہ ہم اسے مطلق حق تسلیم کر لیں۔
۔ افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی نے ۱۳ اپریل ۲۰۱۷ء کو صوبہ ننگرہار کے ضلع اچین میں امریکہ کی جانب سے "مدر آف آل بمز” (Mother of All Bombs) گرائے جانے کے بعد، نیو یارک ٹائمز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ داعش بھی دیگر سکیورٹی کمپینز کی طرح امریکہ کا ایک کانٹریکٹ گروپ ہے۔
۔ ۲۰ نومبر ۲۰۱۷ء کو ترکی کے صدر رجب طیب اردغان نے واشنگٹن پر داعش کے ساتھ مالی تعاون کرنے کا الزام لگایا اور دعویٰ کیا کہ ایسی ویڈیو ٹیپس اور ثبوت موجود ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ امریکہ نے رقہ میں داعش کے ساتھ اس کے محاصرے میں آئے ارکان کو نکالنے میں تعاون کیا تھا۔
۔ سابقہ جمہوریہ کی پارلیمنٹ میں صوبہ ننگر کے عوامی نمائندے ظاہر قدیر نے ۲ نومبر ۲۰۱۷ء کو صوبہ قندھار کے آخری اجلاس میں کہا کہ جب ننگرھار میں داعش اور طالبان کے درمیان جنگ چل رہی تھی، امریکی اور افغان سکیورٹی فورسز داعش کی بجائے طالبان پر بمباری کر رہے تھے۔
ایک انٹرنیٹ ادارے (انفو وارز) نے اپنی تحقیقی رپورٹ میں ایک امریکی فوجی کے الفاظ کا حوالہ دیا جس نے کہا کہ داعش کو انہوں نے مسلح کیا اور اسے ایک عظیم خطرے میں تبدیل کر دیا۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ خطے اور دیگر دنیا کے دشمن کبھی بھی اس سرزمین پر امن دیکھنا نہیں چاہتے، بلکہ ہر وقت ان کی خواہش ہے کہ فوجی مداخلت کے لیے کوئی بہانہ گھڑیں، داعش کو کھڑا کرنا بھی اسی مقصد کے حصول کے لیے تھا، تاکہ دہشت گردوں کی موجودگی کا بہانہ بنایا جا سکے اور جنگ میں اپنے اہداف حاصل کیے جا سکیں۔
اس طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ یہ گروہ قبضے کو دوام دینے کے لیے کھڑا کیا گیا، افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی نے داعش کی سرگرمیوں کے حوالے سے کہا کہ یہ ایک خارجی منصوبہ ہے اور اس کا مقصد افغانستان اور خطے میں جنگ کو طول دینا ہے۔
نہ صرف امریکہ بلکہ داعش آج براہ راست خطے اور دنیا کے دیگر ممالک کے ہاتھوں میں کھلونہ بن چکی ہے اور اسے افغانستان میں مداخلت کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، تاکہ افغانستان کے دشمنوں کو ایک بار پھر خونریز قبضے کا بہانہ مل سکے۔
حقیقت یہ ہے کہ امریکہ اور صلیبی دنیا کی جنگ اسلام کے خلاف ہے اور وہ امت مسلمہ کی بیداری سے خوفزدہ ہیں اور ہمیشہ اس کوشش میں رہتے ہیں کہ اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کے لیے بڑی سرمایہ کاری کریں۔
تھوڑا غور کرنے سے یہ بات سمجھ آجاتی ہے کہ داعش نے خلافت کے حصول کے لیے چھوٹے سے افغانستان کو کیوں چنا؟
ان کے ظہور سے لے کر آج تلک یہ مجاہدین کے خلاف ہی کیوں جنگ کرتے ہیں اور اسلامی مقدسات کو کیوں تباہ کرتے ہیں؟
کیا وہ علاقے اور اسلامی ممالک جہاں اسلام پیروں تلے روندا جا رہا ہے، اسلامی شعائر جہاں کمزور ہیں، یہاں تک کہ کوئی اپنے بچوں کا اسلامی نام تک نہیں رکھ سکتا، جدوجہد اور جہاد کے لیے سب سے بہتر اور مناسب جگہیں نہیں؟
جبکہ مذکورہ ممالک کے مسلمان سخت حالات کا سامنا کر رہے ہیں اور ظالم حکمرانوں کی جانب سے ان پر مظالم ڈھائے جا رہے ہیں۔
آپ خود سوچیں کہ وہ دلائل کہ جو موجودہ حکومت کے خلاف لیکن درحقیقت افغان قوم کے خلاف جنگ کے لیے پیش کرتے ہیں ، ان میں حقیقت اور شریعت کے ساتھ کتنی مطابقت ہے؟
اگر تو آپ کے جھگڑے کا معیار مذہبی اور سیاسی تعصب ہے تو جان لیں کہ ایسے اختلافات، بے جا خون بہانے اور قتل و غارت گری کا کوئی فائدہ نہیں بلکہ امت مسلمہ کے درمیان تفرقہ اور تباہی و بربادی کا سبب ہے۔
اور اگر آپ واقعی میں چاہتے ہیں کہ امت مسلمہ اپنے واضح اہداف، عزت اور شرف کو حاصل کر لے، تو آئیں اسلامی حکومت کی مضبوطی اور ترقی کے لیے مل کر کوشش کریں تاکہ دشمن کے مقابلے میں قوی ہو سکیں۔