مغرب دوسوروں پر اپنا قانون اور تہذیب نافذ کرنے کی خاطر اور دنیا کے سامنے خود کو انسانیت کا خدمتگار ظاہر کرنے کے لیے، اپنے جرائم کو چھپانے اور انہیں جواز فراہم کرنے کے لیے، اسلام کو ایک سخت گیر دین متعارف کروانے کے لیے، مسلمانوں کو دہشت گرد ثابت کرنے کے لیے اور اسلامی افکار اور منہج سے لوگوں کو متنفر اور بیزار کرنے کے لیے میڈیا کا بہت استعمال کرتا ہے، اس پر بہت سرمایہ خرچ کرتا ہے اور وہاں ایسے افراد کی تربیت کرتا ہے جو اسلام دشمنی میں سب سے آگے ہوں اور دوسروں کو گمراہ کرنے میں طویل اور پختہ تجربہ رکھتے ہوں۔
آج کل دنیا کی ایک چھوٹی سی اسلامی سرزمین "فلسطین” میں جو کچھ چل رہا ہے، اگر اس کا تقابل افغانستان کے موجودہ حالات، سو فیصد امن، ترقی، فلاح و بہبود اور معاشی صورتحال کے حوالے سے قابل تحسین ہیں، اس کے باوجود مغربی میڈیا نے فلسطین کے المیے پر خاموش اختیار کر رکھی ہے جبکہ افغانستان کے داخلی معاملات کو بحث کا موضوع بنا رکھا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ اپنا پورا زور لگا کر پراپیگنڈے کا ہتھیار استعمال کرتے ہوئے امارت سے اپنی شکست کا بدلہ لیں اور اسلامی نظام، اس کی پالیسیوں، قوانین اور مواقف کو دنیا کے سامنے بدنام کریں۔
ہر تین ماہ میں اقوام متحدہ کی جانب سے ایک رپورٹ (جو جھوٹ اور الزامات سے بھری ہوتی ہے) افغانستان میں انسانی حقوق کی پامالی، جبری گرفتاریاں، ماورائے عدالت قتل، عام شہریوں کی ہلاکتوں کی تعداد کے حوالے سے نشر کی جاتی ہے۔ حالانکہ غزہ میں اب بھی صہیونی نظام کی جانب سے کی جانے شہادتوں کی تعداد ۳۹ ہزار چار سو پنتالیس تک اور زخمیوں کی تعداد ۹۱ ہزار تہتر تک بڑھ چکی ہے۔ اب تک ۲۰۶ آثار قدیمہ کے مقامات، ۱۹۷ سرکاری مقامات، ۸۲۱ مساجد اور ۴ لاکھ ۳۰ ہزار انفرادی رہائش گاہیں تباہ ہو چکی ہیں اور ۳۴۱۰ قتل عام کے واقعات ریکارڈ کیے گئے ہیں لیکن مغربی میڈیا کا اس سب پر منہ بند ہے۔
ہر روز افغانستان میں بے روزگاری اور معاشی مسائل کی باتیں کی جاتی ہیں، حالانکہ افغانستان میں طالبان کی حکومت آنے کے بعد آج تک فاقہ کشی سے کوئی موت آن ریکارڈ نہیں آئی جبکہ غزہ میں اب تک ۳۷ افراد بھوک کی وجہ سے شہید ہو چکے ہیں۔
یہ بات کی جاتی ہے کہ طالبان کی حکومت سےبچنے کی خاطر بیرون ملک پناہ گزینوں میں اضافہ ہو رہا ہے، جبکہ غزہ میں اب تک دس ہزار افراد لاپتہ اور بیس لاکھ افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔
یہاں صبح شام عورتوں کے حقوق کی پامالی اور تشدد کا راگ الاپا جاتا ہے اور غزہ میں اب تک دس ہزار سات سو اٹھانویں (۱۰،۷۹۸) خواتین شہید ہو چکی ہیں۔
یہاں اظہار رائے کی آزادی سلب کیے جانے، ٹیلی ویژن اور ریڈیو چینلز کی بندش اور صحافیوں پر پابندیوں کی رٹ لگائی جاتی ہے جبکہ غزہ میں اب تک ۱۶۵ صحافی شہید کیے جا چکے ہیں۔
یہاں لڑکیوں کی جدید تعلیم سے محرومی اور سکولوں کی بندش شہ سرخیوں کا عنوان ہتا ہے جبکہ غزہ میں اب تک ۴۴۵ مدارس اور یونیورسٹیاں بمبار ہو چکی ہیں۔
یہاں ڈاکٹرز کی سروسز اور اعلیٰ تنخواہوں سے محرومی کی بات کی جاتی ہے جبکہ غزہ میں اب تک ۵۰۰ طبی کارکن شہید ہو چکے ہیں۔
بچوں کی غذائی قلت کا موضوع یہاں دن رات گرم ہے جبکہ غزہ مٰں اب تک ۱۶ ہزار ایک سو بہتر بچے شہید ہو چکے ہیں۔
یہاں افغانستان میں مغربی میڈیا وقتا فوقتا مختلف بیماریوں کے پھیلنے، صحت مند ماحول اور صحت بخژ غذا کی عدم موجودگی اور علاج تک عدم رسائی پر تبصرے کرتا رہتا ہے جبکہ غزہ میں اب تک ۲۶۲ طبی مراکز اور ہسپتال کام چھوڑ چکے ہیں جبکہ ۱۳۱ ایمبولنس بمبار ہو چکی ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ مغربی میڈیا اسرائیل کے جرائم پر خاموش اور افغانستان کے چھوٹے چھوٹے داخلی مسائل کو زیر بحث کیوں لاتا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس غلام میڈیا کی ذمہ داری ہی یہ ہے کہ کفار کے جرائم کو چھپایا جائے، صالح مسلمانوں کو بدنام کیا جائے اور اسلامی نظام کے خلاف لوگوں کو بدگمان کیا جائے۔ اسی لیے وہ اپنی خبروں میں فلسطین میں حماس کو اور امارت اسلامیہ کا ذکر کرتے ہیں: "حماس جسے امریکہ اور یورپین یونین ایک دہشت گرد تنظیم مانتے ہیں” اور "طالبان جن کی حکومت کو ابھی تک کسی ملک نے تسلیم نہیں کیا ہے۔”
نوٹ: صہیونی نظام کی جانب سے مذکورہ بالا جرائم کی معلومات بااعتماد عرب میڈیا ذرائع سے حاصل کی گئی ہیں۔