خلافت عثمانیہ کے بعد سے مشرق اور مغرب کی باطل سلطنتوں نے ہر ملک پر بلواسطہ یا بلاواسطہ حملہ کیا اور پھر وہاں سے چلے بھی گئے، لیکن ان کے اثرات باقی رہ گئے۔ جیسے برصغیر ابھی تک انگریزوں کے زیر اثر ہے، ترکی میں مغرب کے ایجنٹ اتاترک کے باطل نظریات کے اثرات آج بھی موجود ہیں، اور تاجکستان آج بھی روس کی کالونی ہے وغیرہ۔ لیکن افغانستان وہ واحد ملک ہے کہ جس نے نہ تو ان طاقتوں کے ایجنٹوں کو یہاں وقت دیا، نہ ہی ان کے وجود کو یہاں تسلیم کیا اور نہ ہی ان کے نظریاتی حملوں سے متاثر ہوا۔ اس کے برعکس ان کے خلاف ایسی شدید جدوجہد کی کہ بہت سے ممالک کو بھی ان تین سلطنتوں برطانیہ، روس اور امریکہ کے اپنی سرزمین پر وجود سے پاک کر دیا۔
افغان مجاہد عوام نے اس ساری جدوجہد کے دوران وسائل پر بھروسہ نہیں کیا بلکہ اللہ تعالیٰ کی واحد ذات پر کیا، چاہے دنیا نے افغانوں کو پاگل کہا لیکن غیرت مند رب نے اپنے ساجدین بندوں کو تنہا نہیں چھوڑا، اپنی نصرت کا وعدہ سچ کر دکھایا اور مومن افغانوں کو قبضے اور فساد سے نجات کے تمام راستے دکھا دیے۔
افغانوں کو اپنی کالونی بنانے کی آخری کوشش امریکہ اور نیٹو نے کی، پتہ نہیں انہوں نے افغان قوم کے بارے میں مطالعہ کیا تھا یا نہیں، یا انہیں اپنی ٹیکنالوجی اپنے اہداف کو حاصل کرنے کا اطمینان بخش وسیلہ نظر آئی، لیکن یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ یہاں سب کچھ ان کی مرضی کےخلاف ہی ہوا۔ افغان عوام نے اپنے روحانی پیشوا امیر المؤمنین ملا محمد عمر مجاہد رحمہ اللہ کی قیادت میں احزابِ وقت کے خلاف ایسی تاریخ ساز جدوجہد کی کہ امریکہ کے عسکری تعلیم میں ڈاکٹریٹ حاصل کرنے والے کمانڈر بھی ان پر تسلط حاصل کرنے میں ناکام ہو گئے۔ اگرچہ ا ن کے پاس وہ ٹینکالوجی تھی کہ جس کے حوالے سے ان کا دعویٰ تھا کہ یہ زمین میں چھپی اشیاء تک ڈھونڈ نکالتی ہے، نظریاتی جنگ کے شعبے میں ان کے پاس قوی پراپیگنڈہ ٹولز موجود تھے، لیکن یہ افغان مجاہد عوام کی جہادی صف کو متزلزل اور اپنے برحق مشن سے منحرف نہ کر سکے۔ وہ طاقت جو کبھی افغانستان کو دنیا کے نقشے سے مٹا دینے کے خواب دیکھتی تھی، وہ وقت بھی آیا کہ جب اپنی شکست کو چھپانے کی خاطر افغانوں کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھ گئی، سب شرائط تسلیم کر لیں اور معاہدہ کرنے پر مجبور ہو گئی۔
دوحہ معاہدہ ایک تاریخ ساز معاہدہ تھا جس میں کفر نے اسلامی صف کی طاقت، حکمت، سیاسی بصیرت اور ایمانی قوت کو تسلیم کر لیا۔ بالآخر ملازم انتظامیہ اور ملیشیا کے حوصلے بھی پست ہو گئے، شمال سے فتوحات کا سلسلہ شروع ہوا اور دس دنوں کے اندر افغان مجاہد لشکر نے ۲۴ اسد بمطابق ۱۵ اگست کو کابل پر سفید جھنڈا لہرا دیا۔ اسی شاندار فتح کی تیسری برسی اس بار آنے والے بدھ ۲۴ اسد بمطابق ۱۴ اگست منائی جائے گی۔ ان شاء اللہ
اے سرفروش قوم! تمہارے عزم کو سلام۔ آنے والا آزادی کا دن تمہاری محنتوں، رت جگوں، بیٹوں، پوتوں، بھائیوں، بہنوں، اور ثابت قدم خاندانوں کی قربانیوں کا ثمر ہے۔ بہت سے ممالک جدید آلات اور دستیاب افواج کے باوجود غلامی کی زندگی گزار رہے ہیں، لیکن تمہارے پاس آزادی کی نعمت ہے۔ یہ سب سے پہلے اللہ پر بھروسے اور پھر تمام تکالیف برداشت کرنے کا مثبت انجام ہے۔
آئیں! اس دن کو شرعی حدود میں رہتے ہوئے کامل جذبوں اور ولولے کے ساتھ منائیں، تاکہ دنیا کو دکھا دیں کہ ہم نے اس آزادی کے حصول کے لیے جتنی قربانیاں دیں، اس کی حفاظت کے لیے بھی وہی جذبہ رکھتے ہیں ، شہیدوں سے اپنی وفا کا ثبوت دیں اور یتیموں، بیواؤں، ماؤں اور بہنوں کو دکھا دیں کہ آپ کے شوہر، والد، بچوں اور بھائیوں کا خون رائیگاں نہیں گیا، ان کی بدولت ہمیں مکمل آزادی حاصل ہوئی اور وہ اپنے رب سے ملاقات کے لیے چلے گئے، ہمیں دنیا و آخرت کا فائدہ حاصل ہوا، دنیا میں آزادی اور اسلامی نظام ہمارے نصیب میں آیا اور آخرت میں تمام تکالیف کا احسن بدلہ رب تعالیٰ عطا فرمائے گا، شہید ہماری شفاعت کریں گے۔ ان شاء اللہ
تو اے انسانی خداؤں سے باغی افغان قوم! یہ آزادی تمہیں مبارک ہو۔