استعمار وہ خوفناک رجحان ہے جو اپنے ساتھ بہت سی خوفناک برائیاں لاتا ہے۔ یہ استعمار ہی ہے جو مسلکی فسادات کی راہ ہموار کرتا ہے، ملک کو علاقائی، نسلی و مسلکی ٹکڑوں میں تقسیم کرتا ہے اور ملک توڑنے کی راہ ہموار کرتا ہے، یہ وہ چیز ہے جس کا تجربہ ہم نے گزشتہ چند دہائیوں میں کیا ہے۔
۲۴ اسد (۱۵ اگست) سے قبل استعماری قوتوں بالخصوص کابل انتظامیہ نے بار بار کہا کہ افغانستان میں مختلف گروہ سرگرم ہیں، صرف طالبان کےساتھ امن مذاکرات کا کوئی فائدہ نہیں۔ اس دعوے کو ثابت کرنے کی خاطر وہ مختلف منصوبے میدان میں لائے، جن میں سے داعش کے منصوبے کو پہاڑوں سے اتار کر شہروں میں منتقل کر دیا، بالخصوص ننگرہار اور کابل میں انہیں پرسکون رہائشیں مہیا کیں۔
داعش نے اپنی تشہیر کی خاطر اور امریکی ایما پر مسجدوں، عام لوگوں، دینی مراکز اور علماء کو نشانہ بنایا، تاکہ میڈیا پر خطے میں اور دنیا میں اس کی موجودگی کی بحث چھڑ جائے، لیکن کابل انتظامیہ کے اہلکار بار بار ان چیزوں کا الزام امارت اسلامیہ پر ڈالتے رہے اور لوگوں کے ذہنوں میں امارت اسلامیہ سے دشمنی کے بیج بوتے رہے۔
لیکن ۲۴ اسد (۱۵ اگست) کے بعد جب امارت اسلامیہ نے عام معافی کا اعلان کر دیا تو داعش نے بھی اس معافی سے خطے کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی مدد سے فائدہ اٹھایا، اور کابل اور ننگرہار میں بعض جرائم کا ارتکاب کیا۔ لیکن امارت اسلامیہ کی چند مہینوں کی مسلسل کوشش سے داعش کی جڑیں ایک بار پھر اکھاڑ پھینکی گئیں، ان کے بہت سے لوگ مارے گئے، جو بچے انہوں نے پڑوسی ممالک کا رخ کر لیا۔
اگرچہ خطے کے انٹیلی جنس ادارے افغانستان میں داعش کی موجودگی کا بلا جواز دعویٰ کرتے ہیں لیکن حقیقت میں وہ افغانستان کو ایک اور جنگ کی جانب دھکیل رہے ہیں اور اس طرح اپنے مذموم مقاصد کے حصول کی راہ ہموار کر رہے ہیں۔ لیکن افغانستان میں داعش کی موجودگی کی بحث اب مکمل طور پر ختم ہو چکی ہے۔