گزشتہ زمانوں میں جہاد فی سبیل اللہ اور مسلمانوں کی مقدس سرزمینوں کی حفاظت کے لیے مسلمانانِ عالم جوق در جوق اس قافلہ دعوت وعزیمت سے آ ملے اور پیغمبر عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اس عظیم عبادت کی بجا آوری کے لیے جہادی میدانوں کا رخ کیا۔
اب یہ بات ہر عاقل انسان سمجھتا ہے کہ جب بھی مجاہدین جہاد کے لیے حرکت میں آتے ہیں تو اس وقت وہ کاروبار کے لیے فرصت نہیں پاتے حتیٰ کہ جنگی ضروریات کے لیے بھی وہ کسی قسم کا بندوبست نہیں کرپاتے، اسی وجہ سے اسلام نے مجاہدین کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے دیگر راستے بتائے ہیں جیسے غنیمت اور مسلمانان عالم کی جانب سے مالی تعاون۔
دین اسلام میں مجاہدین کی تیاری و تعاون کے لیے کافی ترغیبی نصوص موجود ہیں جیسے آپ علیہ السلام کا فرمان:
"من جھز غازیا فی سبیل اللہ فقد غزا”
جو شخص بھی مجاہد فی سبیل اللہ کے لیے ضروریات کا بندوبست کرے، گویا اس نے بھی جہاد کیا۔
ایسے واقعات سے اسلامی تاریخ بھری پڑی ہے کہ جب بھی مسلمانوں کی ایک جماعت نے اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے اسلحہ اٹھایا، دیگر مسلمانوں نے ان سے ہر طرح کا تعاون کیا۔
اسی دوران تاریخ میں ایسے لوگ بھی پیدا ہوئے جنہوں نے اپنے غلط افکار و نظریات کی بنا پر ہتھیار اٹھائے، اپنے آپ کو مجاہدینِ اسلام باور کروایا اور مسلمانوں سے تعاون مانگا لیکن مسلمانوں نے ان کے نظریات و افکار کو جاننے کے بعد جانی و مالی سمیت ہر طرح کے تعاون سے ہاتھ کھینچ لیا۔
ان باطل گروہوں نے جب دیکھا کہ تعاون کے راستے مسدود ہوچکے ہیں تو ناچار انہوں نے مالی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ہر طرح کے خلاف شریعت راستے اختیار کرنا شروع کر دیے اور اپنے گروہ کی بقا کو شریعت سے بھی مقدم جانا۔
آج کے دور میں داعشی خوارج ایسے باطل گروہوں کی سب سے بہترین مثال ہے کہ جب مسلمانوں نے ان سے تعاون کرنے سے ہاتھ کھینچ لیا اور یہ لوگ اکیلے رہ گئے تو اپنی تنظیم کو چلانے کی خاطر ہر طرح کے ظلم و ستم پر اتر آئے، جی ہاں! جب مسلمانان عالم کو ان سے متعلق حقائق معلوم ہوئے تو انہوں نے اپنے ہاتھ کھینچ لیے اور کوئی بھی ان کی مدد کو نہ آیا۔
جاری ہے۔۔۔۔۔