افغانستان پر امریکی حملے کے بعد یہاں موجود عرب مجاہدین یہاں سے نکل گئے، جن کی اکثریت واپس عرب ممالک چلی گئی، جب امریکہ نے عراق پر حملہ کیا تو یہی القاعدہ کے مجاہدین تھے جنہوں نے صلیبی دشمن کو عسکری میدان مین ناکوں چنے چبوائے اور انہیں جانی ومالی نقصانات اٹھانے پڑے۔
یہ وہ وقت تھا جب یہاں جہاد کی قیادت ابومصعب زرقاوی کے ہاتھ میں تھی، زرقاوی کو سیف العدل نے شیخ اسامہ سے ملوایا جہاں سے ان کی شناسائی ہوئی، اردن میں زرقاوی کی نیک نامی اور کارکردگی کی بنا پر شیخ اسامہ نے انہیں القاعدہ میں شامل کرلیا۔
شیخ اسامہ نے انہیں ہرات میں ٹھہرایا، امریکی حملے کے بعد زرقاوی عراق چلے گئے۔
عراق پر امریکی حملے کے بعد ۲۰۰۴ء میں زرقاوی نے رسمی طور پر شیخ اسامہ کے ہاتھ پر بیعت کرلی اور اپنی تنظیم مکمل طور پر القاعدہ میں شامل کرلی، انہوں نے امریکی افواج کی خلاف نمایاں کارنامے انجام دیے، اسی وجہ سے زرقاوی کو بین الاقوامی طور پر شہرت حاصل ہوئی۔
زرقاوی نے اپنی زندگی ہی میں تمام عراقی سنیوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرکے امریکیوں پر دندان شکن حملے کیے، اس کے علاوہ ہمسایہ ملک شام کے مسلمانوں کو جہاد کی ترغیب دی۔
زرقاوی ۲۰۰۶ء میں ایک امریکی فضائی حملے میں شہید ہوئے جس کے بعد عراقی القاعدہ کی جانب سے ان کی جگہ ابوحمزہ المہاجر کو امیر بنایا گیا، ابو حمزہ نے اپنے پہلے بیان میں کہا کہ: وقت آگیا ہے کہ امریکیوں پر عبرتناک حملے کیے جائیں، وہ اپنے پیشرو زرقاوی کے نقش قدم پر چلے اور اپنے جہادی سفر کو القاعدہ کی عمومی قیادت کے ماتحت جاری رکھا۔
عراقی سنیوں کی خواہش تھی کہ چھوٹی چھوٹی تنظیموں، گروپوں اور ٹولیوں کی جگہ تمام سنی ایک جھنڈے تلے اور ایک منظم فوج بن کر لڑیں تاکہ عراق میں اپنی حیثیت برقرار رکھنے کے ساتھ ساتھ صلیبی دشمن سے بھر پور انداز جنگ کریں اور وہاں کے شیعوں کے مقابل ایک قوت کے طور پر ابھریں۔
شیخ ایمن الظواہری نے عراقی مجاہدین کو مشورہ دیا کہ وہ امارت اسلامی عراق کے نام سے ایک جھنڈے تلے جمع ہو جائیں لیکن وہاں چند خود غرضوں نے جن کی تفصیل آگے ذکر کی جائے گی، اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ امارت کی جگہ اسلامی خلافت کا اعلان کیا جائے، یہی وہ نقطہ آغاز تھا جہاں سے عراقی سنی ٹکڑوں میں بٹ گئے، کامیابیاں ناکامیوں میں بدل گئیں اور قتل عام کا ایک نا رکنے والا سلسلہ شروع ہوگیا۔
یہ جو کچھ عراق میں پیش آیا اس سے ان تمام امیدوں پر پانی پھر گیا کہ عرب دنیا پر اسلامی نظام کا نفاذ یا پھر اس کا آغاز ہوگا۔
جاری ہے۔۔۔