الَّذِیْنَ یَنْقُضُوْنَ عَهْدَ اللّٰهِ مِنْۢ بَعْدِ مِیْثَاقِهٖ۪-وَ یَقْطَعُوْنَ مَاۤ اَمَرَ اللّٰهُ بِهٖۤ اَنْ یُّوْصَلَ وَ یُفْسِدُوْنَ فِی الْاَرْضِؕ-اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْخٰسِرُوْنَ(البقره:27)
ترجمہ: وہ جو اللہ کے عہد کو توڑ دیتے ہیں پکا ہونے کے بعد اور کاٹتے ہیں اُس چیز کو جس کے جوڑنے کا خدا نے حکم دیا اور زمین میں فساد پھیلاتے ہیں وہی نقصان میں ہیں۔
عن مصعب بن سعد بن ابی وقاص قال: سألت أبی؛ أي عن المراد من هذه الآیة، فقال: هم الحروریة
ترجمہ:حضرت حضرت مصعب بن سعد بن ابی وقاصؓ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے والد سے پوچھاکہ اس آیت سے کون مراد ہیں؟
میرے والد نے فرمایا: ’ھم الحروریۃ‘ اس آیت سے خوارج (حروری) مراد ہیں۔
آج دولت اسلامیہ کے نام سے جو گروپ سرگرم ہے، یہی لوگ خوارج ہیں، کیونکہ جب سے یہ گروہ وجود میں آیاہے اسی وقت سے انہوں نے اہل السنۃ والجماعت کو اپنے نشانے پر رکھا ہواہے، مسلمانوں پر کفر و ارتداد کے فتوے لگاتے ہیں، ان سے جنگ کرتے ہیں، جہاں کہیں بھی اہل السنۃ والجماعت کی کوئی جماعت حاکم ہو یہ لوگ وہاں پہنچ کر کوشش کرتے ہیں کہ انہیں نقصان پہنچائیں یا ان کی قوت کو ختم کر ڈالیں اور ان کی جگہ اپنی خارجیت و موسادیت پھیلائیں۔
ان کی ایک گمراہی یہ ہے کہ یہ لوگ مومن معاشرے پر کفر کے فتوے لگاتے ہیں، انہیں شہید کرتے ہیں مگر حقیقی کفار یہود و نصاریٰ سے کوئی تعرض نہیں کرتے ایسے ہی لوگوں کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایاہے:
’’يَقتلون أهل الإسلام ويَدَعون أهل الأوثان’ لئن أنا أَدركتهُم لأَقتلنَّهُم قَتل عاد‘‘
(بخاري ج۲ حديث نمبر۷۴۳۲ مسند امام احمد ج۳ ص ۴)ترجمہ: خوارج مسلمانوں کو قتل کریں گے اور کفار کو چھوڑیں گے، اگر میں نے ان کو پایا تو انہیں عاد کی طرح قتل کروں گا۔
ملا علی قاری رحمہ اللہ اس حدیث کی تشریح میں فرماتے ہیں:
یہ (خوارج) مسلمانوں کی تکفیر کریں گے اور انہیں قتل کریں گے۔
ان کے یہ اعمال حیران کن ہیں، اگر دیکھا جائے کہ پوری دنیا پر یہود و نصاریٰ قابض ہیں، یہ لوگ بخیر و عافیت زندگی بسر کررہے ہیں، آج تک کوئی ایسا خارجی پیدا نہیں ہوا جو یہود و نصاریٰ کو اپنا ہدف بنائے۔
دنیا میں ہر جگہ خلافت اسلامی، شرعی نظام اور آزادی چاہنے والے مظلومانہ زندگی بسر کررہے ہیں، وہ قید و بند، قتل و دربدر پھر رہے ہیں، یہ داعشی خوارج ان مظلوموں کے زخموں پر مزید نمک پاشی کے مرتکب ہو رہے ہیں، آج مسلمانانِ فلسطین کی حالت زار سب کے سامنے ہے، داعش اسرائیل کے مقابلے میں لڑنے کی بجائے فلسطین کے اہل حق مجاہدین کی تکفیر کر رہے ہیں، ان کی مبارک جدوجہدِ آزادی کو فساد اور ان کے شھداء کو مردار کہتے ہیں۔
کیا یہ سب خوارج کی جانب سے اسلامی خلافت سے خیانت و غداری نہیں؟!
یہ لوگ گلے پھاڑ پھاڑ کر قیامِ خلافت کے نعرے لگاتے ہیں مگر جہاں بھی جہاد جاری ہو، جہاں اسلامی نظام قائم کرنے والے افراد ہوں انہی کو یہ لوگ قتل کرتے ہیں، ان کے جہاد کو فساد سے تعبیر کرتے ہیں۔ مگر جہاں یہود ہوں وہ اپنے عیش وعشرت میں امن و آرام سے زندگی بسر کرتے ہوں گے۔
ان کی دوسری بڑی خیانت اور غدر یہ ہے کہ ان کے پیشوا ذوالخویصرہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر سوء ظن کیا اور آپ علیہ السلام پر غیر عادل ہونے کا الزام لگاتے ہوئے کہا تھا:
اے محمد! آپ انصاف سے کام لیں، آپ عدل نہیں کررہے۔(ابن ماجہ)
جو شخص اللہ تعالی کے محبوب پیغمبرﷺ پر ناانصافی کا الزام لگائے، کیا یہ تمام مسلمانوں سے غداری و خیانت نہیں؟!
یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ داعش اسلامی نظام کے مخالف ہیں، یہ لوگ نہیں چاہتے کہ خطے میں خلافت اور اسلامی نظام قائم ہو، کیونکہ اگر یہ لوگ حقیقت میں اس نظام کے خواہاں ہوتے تو عراق میں ہزاروں اہل سنت مسلمانوں اور علماء کو قتل نہ کرتے جو اسلامی نظام کے طالب تھے۔
اگر یہ لوگ اسلامی نظام کے طالب ہوتے تو امارت اسلامی افغانستان سے بیعت کرتے مگر اس کے برعکس انہوں نے اسلامی نظام کے خلاف بغاوت کی اور آج بھی اسی بد بختی پر قائم ہیں۔ انہوں نے افغانستان کے کئی معصوم علمائے کرام کو صرف اس وجہ سے شھید کیا کہ وہ امارت اسلامی کے قیام میں کوشاں تھے۔
حیرانی کی بات تو یہ تھی کہ جب امریکہ کی سرکردگی میں ۴۸ ممالک نے افغانستان پر حملہ کیا، حملے کی ابتدا سے آخر تک کبھی بھی حملہ آور کفار پر حملہ نہیں کیا بلکہ اس کے برعکس جہاں بھی مجاہدین ان کا محاصرہ کرتے، ان کے دفاع و حفاظت کے لیے فورا امریکی افواج پہنچ جاتیں۔
یہ بات عیاں ہوچکی ہے کہ یہ لوگ اسلامی خلافت کے دشمن، ان کے نعرے جھوٹ، ان کے اعمال فاسد اوریہ لوگ اسرائیلی ایجنسی موساد کے آلہ کار اور اپنی ذاتی مفادات کے طالب ہونے کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے قاتل ہیں، لیکن یہ ممکن ہے کہ یہ لوگ اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب ہوسکیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث مبارک ہے کہ جہاد قیامت تک جاری رہے گا، اسی پرہمارا ایمان اور عقیدہ ہے کہ حق و باطل کا معرکہ تاقیامت جاری رہے گا۔