کچھ عرصہ قبل خبروں میں پڑھا کہ ایرانی حکومت نے مقاومت گروپ کے چار باغیوں کو داعش کے ساتھ تعاون کے الزام میں گرفتار کیا ہے۔ یہ پہلی بار نہیں کہ داعشی خوارج اورجبہہ مقاومت کے درمیان تعلقات کا انکشاف ہوا ہو بلکہ اس سے پہلے کئی بار ایسے واقعات پیش آ چکے ہیں جن سے داعش اور مقاومتی باغیوں کے درمیان گہرے تعلقات کی نشاندہی ہوتی ہے۔
مثال کے طور پر انتخابی مہم کے دوران اشرف غنی کے نائب امراللہ صالح نے کہا:
پاکستانی تفتیش کاروں نے افغانستان کی قومی سلامتی کی جیلوں میں آکر قیدیوں سے تفتیس کی تھی، بعد میں معلوم ہوا کہ مذکورہ جیلیں دراصل داعش کے مہمان خانے تھے۔
داعشی خوارج اورمقاومتی باغیوں کے درمیان تعلقات اس وقت باقاعدہ اتحاد میں بدل گئے جب فتح کے بعد امارت اسلامیہ نے بہت ہی کم وقت میں ان دونوں دشمنوں کو شکست دی اوران کی سرگرمیاں بالکل ختم کر ڈالیں، اگر ہم تاریخ کا مطالعہ کریں، اسلامی اورغیراسلامی دنیا میں ہمیں ایسا اتحاد کم ہی ملے گا جو کامیابی حاصل کرنے سے پہلے یا بعد میں انتشار و افتراق کا شکار نہ ہوا ہو۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ اتحاد کے لیے مشترکہ اقدار و اہداف کی ضرورت ہوتی ہے، یا اگر مشترکہ نہ بھی ہوں تواس اتحاد میں شامل فریقین کی جانب سے اقدار کا باہمی احترام ہونا چاہیے۔
داعش اور مقاومت کا اتحاد، یہ ایک ایسا اتحاد ہے جس کی ناکامی کے آثار ابھی سے موجود ہیں، انشاء اللہ مستقبل قریب میں ہم اس اتحاد کی تباہی اور باہمی اختلافات کو دیکھیں گے۔
وہ معاملات جو اس نام نہاد اتحاد کے ٹوٹنے کی نشاندہی کرتے ہیں، مندرجہ ذیل ہیں:
۱۔ داعش اور مقاومت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت (اہل السنۃ و الجماعت) کے اس طرح خلاف ہیں کہ وہ کبھی ایک ساتھ نہیں چل سکتے داعش اھل السنۃ کا انتہا پسند طبقہ ہے جبکہ مقاومت والے اہل السنۃ کے نچلے طبقے یعنی تفریط کا شکار ہیں، لہٰذا افراط و تفریط کے درمیان اتحاد، جیسا کہ ماضی میں ناممکن تھا، حال اور مستقبل میں بھی ناممکن ہی رہے گا۔
۲- داعش اپنے افراط پرست عقیدے کی بنیاد پر، اپنے مخالفین کو مرتد قرار دیتی ہے، جہاں تک مقاومت والوں کا تعلق ہے تو وہ ایمان و عقیدے نام کی کوئی چیز نہیں جانتے، یہ لوگ ہر وقت عالمی کافروں (یہود و نصاریٰ) کی مدد سے اپنی سرگرمیاں جاری رکھتے ہیں۔
لہذا، اگر مستقبل میں داعش مقاومت کے ساتھ اتحاد کے بل بوتے پر یہودیوں سے مدد کے لیے ہاتھ بڑھاتے ہیں تو یہ داعش کے اصلی چہرے کو آشکارا کرنے کے لیے واضح دلیل ہوگی کیونکہ کوئی بھی تحریک اپنی جدوجہد پرسوالیہ نشان نہیں لگانا چاہتی، یہی وجہ ہے کہ داعش مقاومت سے اپنے تعلقات منقطع کرنے پر مجبور ہے۔
۳:- داعش دنیا بھر میں خلافت قائم کرنے کا دعویٰ کرتی ہے، لیکن مقاومت چاہتی ہے کہ وہ ایک محدود جغرافیائی علاقے پر اپنی حکومت قائم کرے، اس لیے اگر یہ لوگ کامیاب بھی ہو جائیں، فتح کے بعد وہ جلد ہی ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرائی شروع کردیں گے کیونکہ دونوں کے مفادات میں بہت فرق ہے۔
مندرجہ بالا صورتوں پر غور کرتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ داعش مقاومت اتحاد صرف اور صرف امارت اسلامیہ کی مخالفت کی بنیاد پر قائم کیا گیا ہے، اس کے علاوہ کوئی چیز اس اتحاد کی بقا اور تسلسل کی ضمانت نہیں دے سکتی۔