داعش نے دورِ حاضر میں حق و سچے راستے پرغلط و باطل راستے کو ترجیح دی، اور افغانستان اور ساری دنیا کے لوگوں کے سامنے اپنا چھپا ہوا چہرہ ظاہر کر دیا۔ داعش کا خفیہ چہرہ ایک مکروہ چہرہ ہے جس کے بارے میں اب تمام لوگ جان چکے ہیں۔
ان کے خفیہ منصوبے اور مقاصد طشت ازبام ہوچکے ہیں اور سب کو معلوم ہے کہ ان مذموم منصوبوں کے پیچھے کس قسم کی سازشیں اور فتنے پوشیدہ ہیں، انہوں نے جو دہشت گردی کی کارروائیاں، خوف و دہشت پھیلا رکھی ہے اور دوسری طرف اپنے زیر کنٹرول معصوم عوام پرانہوں نے جس ظلم و بربریت سے کام لیا ہے اسے تمام لوگوں نے سمجھ لیا ہے۔
بنیادی طور پر داعش کا ظلم اور بربریت واضح ہے، انہوں نے اپنے لیے جو القاب اور نام چنے ہیں وہ سب بے معنی اور لایعنی ہیں، ان جگہوں پر جہاں ایک وقت داعش کا کنٹرول تھا وہاں یہ واضح ہوگیا ہے کہ یہ تنظیم اور تحریک کسی نظام اور ریاست کی تعمیر کی کوشش نہیں کر رہی ہے، بلکہ یہ ایک عارضی منصوبہ ہے جس کی عمر بہت کم ہے۔
ظلم و بربریت ان کے ہر منصوبے میں وجود رکھتی ہے، وہ نظریات جو ان کے عقائد و افکار پر حاوی ہیں، داعش نے اپنی طاقت اور کنٹرول کا ذریعہ بنائے ہوئے ہیں اور انہی نظریات کواسلام کے مقدس جہاد کا نام دے رہے ہیں، یہ لوگ مقدسات اسلام کو دنیا کے سامنے اپنے ظالمانہ اعمال سے بے رحم اور وحشت باور کروا رہے ہیں، اسی لیے وہ اس مقدس اور پاکیزہ راستے سے کوسوں دور ہیں، ان کا اسلام اور جہاد سے کوئی تعلق نہیں۔
جس راستے میں آپ اپنی جان، مال اور سب کچھ قربان کرنا گوارا کر لیتے ہیں وہ راستہ ہے جس کے نتیجے میں دنیا اور آخرت کی کامیابی نصیب ہوتی ہے، لیکن اس منفی فکر کے حامل گروہ نے اپنے فاسد نظریات و اعمال بد سے اپنے آپ کو دنیا اور آخرت کی ناکامی و نامرادی کا حق دار ٹھہرا دیا ہے۔
عقل اور شعور کی ان کے ہاں کوئی حیثیت نہیں اور حقیقت یہ ہے کہ ان کے عقائد وہی ہیں جو ان کے دماغ میں عالمی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے ڈال دیے ہیں۔
مفاہمت اور باہمی رضامندی کے بارے میں ان کے منفی نقطہ نظر نے ان کے عقائد کو تہہ و بالا کر کے رکھ دیا ہے اورجو کوئی بھی ان کی مخالفت کرتا ہے وہ ان کے نزدیک دائرہ اسلام سے خارج ہے۔
ہر وہ فکر اور عقیدہ جو ان کے دل کو نہیں بھاتا، وہ اسے گمراہ اور باطل کہتے ہیں، دراصل یہ فکر اور عقیدہ اسلامی اقدار اوربنیادی اسلامی تعلیمات کے یکسر منافی ہے اور دین اسلام میں اس کی کوئی حیثیت نہیں۔