اپنی سرگرمیوں کے آغاز میں داعش عراق سے نکلی اور آہستہ آہستہ مکڑی کی طرح دوسرے ممالک اور مقامات پر پھیل گئی اور اپنے مراکز بنائے۔
عراق ایک مدت تک امریکی قبضے میں رہا اور اس عرصے میں شدید اور تباہ کن جنگ کے ساتھ ساتھ امریکی فوجی دستوں کی چھتری تلے قتل و غارت اورمظالم سے آشناہوا، اس وقت عوام کی جانیں لی جا رہی تھیں اورعزتیں برباد ہو رہی تھیں۔
عراقی عوام کے اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کےلیے دشمن فرقہ واریت اورمذہبی اختلافات پیدا کرنے میں مصروف تھا، تاکہ ملت کی وحدت کو تباہ کیا جا سکے، جس کی وجہ سے شیعہ اور سنی کے نام پر معصوم عوام میں تفرقہ پیدا ہوگیا۔
شیعہ کی جانب سے حکومت قائم کرنے کے ساتھ ہی معاشرے میں امتیازی سلوک اور نسل پرستی کو بہت زیادہ پروان چڑھایا گیا۔ حکومت کی طرف سے عوام کو ناراض کرنے اوردیگر بھیانک جرائم کا ارتکاب کرنے کے نتیجے میں عوام کی جانب سے انتقام، ظلم کے خلاف اور انصاف کے مطالبات بڑھتے گئے۔
اس کے ساتھ ساتھ موقع پرستوں نے اس غیر یقینی صورتحال کا بھرپور فائدہ اٹھایا، دشمنوں نے انصاف کے طالب مظاہرین کے نام پر، خاص کر اہل السنۃ کا نام استعمال کرتے ہوئے معاشرے کو عملاً دو متضاد بنیاد پرست گروہوں میں تقسیم کر دیا۔
داعش نے ابتدا میں شیعوں سے انتقام لینا شروع کیا اور انتہائی بے رحمی سے بڑے پیمانے پر قتل وغارت گری کا سلسلہ شروع کیا۔
وہ حسد اور نفرت جو عراق میں اہل السنۃ کے خلاف بتدریج پروان چڑھی تھی، داعش کے اعلان خلافت کے ساتھ ہی داعش نے تھوڑے ہی عرصے میں لاتعداد لوگوں کو اہل السنۃ مجاہدین کے خلاف کھڑا کردیا اور مظلوم مسلمانوں کے خون کی نہریں بہا دیں۔
ابتدا میں داعش کے حامی اور پیروکار مختلف ممالک اور دور دراز علاقوں سے آئے، جو داعش کے لیے طاقت اور فوج دونوں کا ذریعہ بن گئے، لیکن کچھ عرصے بعد معلوم ہوا کہ اس نام سے ایسے جرائم کیے جا رہے ہیں جو مذہب اور انسانیت کے نام پر دھبہ ہیں اور داعش انتہا و شدت پسندی کی راہ پرگامزن ہیں، اسی وجہ سے ان کے پیرو کم سے کم ہوتے گئے، ان مظالم کے نتیجے میں وہ عوامی حمایت کھو بیٹھی۔