ان کا خاندان صہیونی قبضے کی وجہ سے اپنے علاقے سے ہجرت کر گیا تھا، وہ غزہ کے علاقے خان یونس میں اس ارادے سے آباد ہوئے کہ وہ ایک بار اپنے گاؤں اور وطن ضرور لوٹیں گے۔ گوشت پوست اور ہڈٰیوں سے بنے ایک فولادی عزم کے مالک انسان نے ہجرت کی سختیوں میں آنکھ کھولی۔ اس بچے کو مہاجر ماں نے ملک کے تقدس، آزادی و حریت کی گھٹی اور اپنا حلال دودھ پلایا، عرب و اسلام کی حمیت پر اس کی تربیت کی۔ بچپن ہی سے ہوشیار، حسّاس اور بیدار مغز تھے۔ جب تعلیم حاصل کرنے کی عمر کو پہنچے تو یہیں اسلامی ماحول میں اسکول کی تعلیم حاصل کی اور یہیں سےعربی ادب فیکلٹی سے فارغ التحصیل ہوئے۔ عربی ادب کے ساتھ ساتھ ایمان و غیرت کے مینار شیخ العزۃ والجہاد شیخ الاحرار والابطال شیخ احمد یسین سے اسلامی روح و حریت کا سبق سیکھا اور اس مقدس راستے پر چلتے ہوئے اپنے شیخ کے مرید باصفا بن گئے۔
فارغ التحصیل ہوتے ہی اپنی تمام سوچیں قبلۂ اوّل اور تیسرے حرم کی آزادی پر مرکوز کر دیں اور اپنے شاندار ماضی کے اعادے کے لیے کمر کس لی۔ انہیں تکلیفیں، لالچ اور دنیاوی آسائشیں اپنے عزم سے نہ پھیرسکیں۔ جہادی تھکاوٹ، قید و بند کی سختیاں، ہتھکڑیاں اور تشدد ان کے مضبوط عزم کے آگے ڈھیر ہو گئے۔
انہوں نے کئی بار جیل کی صعوبتیں برداشت کیں، تقریباً دو دہائیاں جیل کی سلاخوں کے پیچھے گزاریں، لیکن ان کا عزم اب بھی پختہ تھا اور بدلہ لینے کا جذبہ اورصہیونی دشمن سے نفرت و انتقام کی آگ اب بھی جل رہی تھی۔
جنگوں کا یہ مضبوط جنگجو میدانِ جہاد میں بیدار مغز، حساس اور تجربہ کار ہونے کے ساتھ ساتھ حوصلے اور ایمانی جذبے کا مالک تھا۔ اس نے ہزاروں جانباز سپاہی تیار کیے، عالمی صہیونی صلیبی قوتوں کی موجودگی اور سخت حالات میں عسکری سازوسامان فراہم کیا بلکہ وسائل کی عدم دستیابی کے باوجود نت نئے ہتھیار اور جدید ٹیکنالوجی سے مدد لے کر کامیاب کاروائیاں سرانجام دیں۔
اس نے سمندر کے ساحل پر محصور علاقے کو صیہونیت کے گلے کا کانٹا بنا دیا، اس نے کم مسافت والے علاقے کو جو کہ پہاڑوں کے درمیان زمین کا ایک ٹکڑا ہے، سرنگوں کے جال میں بدل کر اسے ایک ناقابل تسخیر قلعہ بنا دیا۔
اس جنگی شہسوار کی عمر اس میدان میں ساٹھ برس کی ہو گئی، لیکن اس کا جسم اس کے فولادی عزم کی طرح استقامت اختیار کیے ہوئے تھا، جیسے ایک مضبوط اور باحوصلہ نوجوان جو دشمنوں کی صفوں کی صفیں کاٹ ڈالتا ہے۔
طویل خاموشی نے دشمن کو یقین دلایا کہ غزہ کی پٹی کا یہ شیر سو رہا ہے، لیکن حقیقت کچھ اور تھی۔ شیر سو نہیں رہا تھا، بلکہ جنگ کی تیاری میں مصروف تھا اور دشمن کے گھر میں اپنی انٹیلی جنس جڑیں مضبوط کر رہا تھا۔
وہ دشمن، جو انٹیلی جنس کے میدان میں کسی کو اپنا ہم سر نہ سمجھتا تھا، اسے اس قدر غافل رکھا کہ دشمن اپنی غفلت اور کمزوری کا اعتراف کرنے پر مجبور ہو گیا۔
یہ تیاری دشمن کے محاصرے کو توڑنے اور طویل خطرناک منصوبوں کو ناکام بنانے کے لیے ۷ اکتوبر کو اپنے مظلوم اور قیدی بھائیوں کو رہا کرنے کے لیے ظہور پذیر ہوئی۔ انہوں نے حصار کی دیواریں توڑڈالیں، اپنے مظلوم اور قیدی بھائیوں کو آزاد کرانے کے لیے دشمنوں کو قتل کیا، ذلت کی خاک چٹائی اور ان کی ایک بڑی تعداد کو قید کر لیا تاکہ اپنے مظلوم قیدی بھائیوں کو رہائی دلوا سکیں۔
لیکن عالمی استکبار کو اس شرمناک شکست نے حواس باختہ کر دیا، دشمن نے مغربی دنیا کے سامنے اپنی بقا کی پکار لگائی اور اپنی شرمندگی چھپانے کی کوشش میں اس نے معصوم مسلمانوں کا قتلِ عام شروع کردیا۔ انہوں نے زمین کے اس چھوٹے اور خوبصورت ٹکڑے کو تباہ کر دیا، ہزاروں بے سہارا لوگوں کو قتل اور معذور کر دیا۔ ان کا خیال تھا کہ ان مظالم کے نتیجے میں جہاد و مقاومت کو ختم کر دے گا اور غزہ کی پٹی اس کے کنٹرول میں آجائے گی۔ مگرآج بھی ایک سال گزرنے کے باوجود جنگ کی آگ اسی طرح جل رہی ہے۔
دشمن کا سب سے اہم ہدف میدانِ جہاد کے اس خطرناک کھلاڑی کو ختم کرنا تھا، انہوں نے اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے ٹیکنالوجی سے لیس تمام انٹیلی جنس یونٹوں کو کام پر لگا رکھا تھا، ان کا خیال تھا کہ مطلوب شخص یا تو بہت دور بھاگ گیا ہے یا پھر پیچیدہ سرنگوں میں چھپا ہوا ہے۔ اس نے اپنے دفاع کے لیے بڑی تعداد میں جنگجؤوں کو ساتھ رکھا ہوگا یا ہمارے قیدیوں کو اپنے لیے ڈھال بنایا ہوگا۔ لیکن حقیقت میں سب کچھ ان کی توقعات کے برعکس نکلا، انہوں نے اپنی مسلح افواج اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کو ایک بار پھر رسوا کروا دیا، مقدس جہاد کا یہ سپاہی نقاب پہنے کھلے میدان میں سرگرم تھا۔ وہ صہیونیوں کو قتل کر کے اپنا سینہ ٹھنڈا کر رہا تھا اور شہادت کا جام پینے کے لیے تشنہ لب تھا۔ تقریباً اکسٹھ سال کی عمر میں وہ ہاتھ میں ہتھیار لیے دشمن سے آمنے سامنے جنگ میں مصروف تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے دیدار کے لیے شہادت کے عظیم تحفے سے نوازا۔ نحسبہ کذلک واللہ حسیبہ
میدان جنگ گرم تھا، دشمن کے ساتھ گولیوں کا تبادلہ ہو رہا تھا کہ تقدیر کا وقت آن پہنچا، اسلام کا یہ شیر زخمی ہوا، اس نے اپنا چہرہ رومال سے ڈھانپ لیا اور ایک صوفے پر آرام کے لیے بیٹھ گیا، تو حملہ آوروں نے ڈرون کیمرہ بھیجا، جب کیمرہ قریب ہوا تو اس نے اپنی آخری کوشش اوراسلحہ ختم ہونے پر اسے چھڑی بھی ماری، آخرکار وہ دشمن کے توپ خانے کا نشانہ بنا اور شہید ہوگیا۔
اسلام کا یہ فولادی جذبے کا مالک سپہ سالار عزت و فخر سے فانی دنیا سے رخصت ہو گیا اور اپنے پیچھے ایسی مقدس جماعت کو ایمان کے زیور سے آراستہ کر کے چھوڑ گیا جو قیامت تک اسلامی اصولوں کے دفاع میں کھڑے رہیں گے۔ انشاء اللہ!
ان کی شہادت کے دو دن بعد دشمن کو ان کی شہادت کا علم ہوا، اس کی بہادری و دلیری کا اعتراف کرتے ہوئے انہوں نے اس کی شہادت کا جشن منایا (والفضل ماشھد بہ الاعداء)۔
اسلام کے اس فداکار سپاہی نے اپنے خون سے تاریخ رقم کر ڈالی اور اپنا نام شہدائے اسلام کی فہرست میں سنہری حروف سے لکھوا دیا۔
دور حاضر کا یہ عملی مؤرخ شہید ابو ابراہیم یحییٰ سنوار ہے، اللہ اس کی مغفرت کرے، اس پر رحم کرے اور اسے امت مسلمہ کی جانب سے جزائے خیر عطا کرے!