جب بھی بچوں کو مختلف دہشت گرد اور انتہا پسند گروپس میں لیا جاتا ہے، یہ بچے ان گروپوں میں مختلف کردار ادا کرتے ہیں، لیکن داعشی خلافت میں "بچے سپاہیوں” کا استعمال ایک پیچیدہ اور کثیر جہتی عمل ہے۔
داعشی اپنے بڑی عمر کے افراد کے ساتھ تشدد کی کاروائیوں کو انجام دینے کے لیے بچوں کو بھی بڑے مجرموں کے طور پر باقاعدگی سے استعمال کرتے ہیں، اپنے پروپیگنڈا مہم میں یہ گروپ فخر کے ساتھ بچوں کو سنائپرز، خودکش بمباروں اور میدان جنگ میں فوجیوں کے طور پر پیش کرتا ہے۔
اس مقالے کے دوسرا حصہ پڑھنے سے پہلے ہمیں "نوعمر یا بچہ سپاہی” کی اصطلاح کو سمجھنا چاہیے۔
بچہ سپاہی اسے کہاجاتاہے، جو 18 سال سے کم عمر ہو؛ جسے کسی دہشت گرد مسلح گروپ نے بھرتی کیا ہو اور اسے جنگجو، جاسوس، پیغام رساں، باورچی یا دیگر مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہو۔
تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ 2015ء سے 2021ء تک، 1,100 سے زیادہ صرف شامی بچے جن کی عمریں 16 سال سے کم تھیں، وہ رضاکارانہ طور پر داعش میں شامل ہوئے اورعسکری افراد کے طور پر ان کے لیے کام کرتے رہے۔
بچے آسانی سے ان مادی اور نفسیاتی فوائد کی طرف راغب ہوتے ہیں جو داعشی پیش کرتے ہیں؛ داعش کی خلافت میں شامل ہونے والے بچوں کو ماہانہ تنخواہ ملتی ہے، بچوں کو تنخواہ دینا اس گروہ کی جانب سے ایک موثر اور حوصلہ افزا عنصر ہے۔
داعش اپنے ہتھیاروں اور یونیفارم کے ذریعے بچوں کو بھرتی کرنا جاری رکھے ہوئے ہیں، 16 سال کی عمر میں داعش میں شامل ہونے والے رائد سوری نے ہیومن رائٹس واچ کو دیے گیے اپنے انٹرویو کے دوران کہا: "مجھے داعش کا یونیفارم بہت پسند تھا اور ان کے پاس بہت زیادہ ہتھیار تھے، اس لیے میں نے فیصلہ کیا کہ داعش میں شامل ہوجاؤں۔”
اس موضوع کی مختلف جہتیں ہیں، اس مضمون میں ہم ان شاء اللہ داعشی خلافت میں بچوں کو استعمال کرنے کی وجوہات پر بات کرنے کی کوشش کریں گے۔
محترم قارئین!
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بچوں کو نہ صرف بڑے افراد کے ساتھ مسلح کاروائیوں میں شامل کیاجاتا ہے بلکہ صرف انہی سے بھی کام لیاجاتاہے کیونکہ بچوں کے استعمال سے دہشت گرد گروہ کو مختلف فوائد حاصل ہوتے ہیں۔
چونکہ یہ موضوع بہت اہم ہے اس لیے ہم اس مضمون کے مختلف حصوں میں تفصیل سے بیان کریں گے۔
جاری ہے…