خوارج کے خلاف مسلمانوں کا موقف اسلامی تاریخ اور شریعت میں اچھی طرح سے واضح ہے، خوارج وہ گروہ تھا جو اسلام کی حقیقی تعلیمات سے منحرف ہوکر غلو و افراط کی ترویج کرتا تھا۔
اسلامی تعلیمات میں خوارج کی تشدد اور جنونیت کی مذمت کی گئی ہے اور ان کے اعمال کو اسلامی اقدار کے خلاف قرار دیا گیا ہے۔
اس بات کا امکان بہت کم ہے کہ خوارج اسلام کی بنیادی تعلیمات پر عمل پیرا ہوں گے، چونکہ ان کے بنیادی عقائد اور طرز فکراسلامی تعلیمات سے کوسوں دور تھے، وہ بنیاد پرست، سخت گیر اور انتہا پسندانہ عقائد کے حامل تھے اور انہوں نے اپنے اعمال میں پرتشدد اور سخت رویہ اختیار کیا، جس کے نتیجے میں یہ لوگ معصوم لوگوں کا خون بہاتے تھے۔
تاریخ اسلام کے ہر دور میں مسلمانوں نے خوارج کے سامنے اسلام کے معتدل اور درست تصورات پیش کرنے کی کوشش کی، لیکن ان کے اکثر پیروکاروں نے اسے مسترد کر دیا۔
خوارج کے خیالات وافکار اس قدر پختہ تھے کہ وہ اپنے آپ کو دوسرے مسلمانوں سے برتر اور صالح سمجھتے تھے اور جو کوئی ان کے عقائد سے متفق نہیں نہ ہوتا، اسے دائرہ ایمان سے خارج قرار دیتے تھے۔
ان کے بنیاد پرست افکار اور ان کے وجود کے خلاف مسلمانوں پر لازم ہے کہ شریعت کے دائرہ کار میں درج ذیل اقدامات اٹھائیں۔
۱۔ راہ حق کی دعوت:
مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ خوارج کو نرمی اور حکمت کے ذریعے اسلام کی اہم ہدایات اورمعتدل تعلیمات سکھائیں، اگر اللہ نے چاہا اور وہ علم اور منطق کے ذریعے مطمئن ہوئے، تو یہ بہترین حل ہے۔
۲۔ تشدد سے بچنے کی کوشش کرنا:
خوارج اپنے عقائد میں بنیاد پرست ہونے کے ساتھ ساتھ تشدد پھیلاتے ہیں، جبکہ اسلام مسلمانوں کو غیر ضروری تشدد سے منع کرتا ہے، اس لیے ضروری ہے کہ خوارج کے خلاف پہلی کوشش یہ ہو کہ انہیں صلح کے ذریعے حق کی دعوت دی جائے۔
۳۔ جنگ کے ذریعے حق قبول کروایا جائے یا انہیں قتل کر دیا جائے:
یہ وہ صورت ہے جس میں خوارج تشدد کا سہارا لیتے ہیں اورسلامتی کے لیے خطرہ بن جاتے ہیں، جیسا کہ آج ان کے ایک گروہ (داعش) نے مسلمانوں کے حقوق کو پامال کیا ہوا ہے اورمعصوم مسلمانوں کے قتل میں ملوث ہیں۔
اس صورت میں ہر مسلمان اور اسلامی نظام کے سکیورٹی اداروں پر سختی سے فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ مسلمانوں کی سلامتی اور استحکام، اختلافات کے سدباب اور اسلامی نظام کی حفاظت کے لیے جنگ کے ذریعے اس فتنہ کو روکیں۔
اس سلسلے میں حضرت علی کا دور ذکر کیا جا سکتا ہے، جب خوارج جنگ اور فتنہ کا سبب بنے تو علی رضی اللہ عنہ نے ان کے خلاف عسکری کارروائی کی۔
یہ لوگ اخلاقیات اوراعتدال پسندانہ سوچ کے بجائے اپنے بنیاد پرست نظریات، تعصب، نفرت اور سخت گیرافکار کو پھیلاتے ہیں، اگر یہ نظریہ معاشرے میں پھیلے تو لوگ دین کی اصل روح سے ہٹ کر انتہا پسندی کی طرف مائل ہو جائیں گے۔
اس بنا پر کہا جا سکتا ہے کہ اگر (خوارج) کو بے لگام چھوڑ دیا گیا تو اس سے امت مسلمہ کی مذہبی، سماجی اور فکری بنیادوں کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے، اسی لیے تاریخ اسلام میں خوارج کے خلاف سنجیدہ اقدامات کیے گئے ہیں، تاکہ امت کا اتحاد، سلامتی اور ترقی محفوظ رہے۔