داعشی خوارج نے نہ صرف لوگوں کو، قیمتی نوادرات، تیل اور گیس کو لوٹا اور بیچا، بلکہ اس شیطانی فتنے کے پاس مالی اعانت کے دوسرے طریقے بھی تھے۔
جیسے جزیے کے نام پر بھتہ خوری، غلاموں اور لونڈیوں کے نام پر عورتوں اور بچوں کی فروخت خوارجوں کی آمدنی کا دوسرا ذریعہ سمجھا جاتا تھا۔
ان ناجائز طریقوں کو جنہیں ان کے مردود و نام نہاد علماء کے فتووں کی بنیاد پر مذہبی رنگ دیا گیا، اسی طرح دیگر بہت سی حرام کاریوں کو اپنے آپ کے لیے مباح سمجھتے تھے۔
داعشی خوارج نے خلافت اور اسلامی نظام کے نام سے ناجائز فائدہ اٹھایا اور جن شہروں میں دوسرے مذاہب و ادایان کے ماننے والے رہتے تھے وہاں مساجد کے ذریعے اعلانات کر کے ان سے جزیے کا مطالبہ کرتے تھے۔
اس وقت ان بدنام زمانہ شرپسندوں نے عراق کے شہر موصل کی مساجد میں اعلانات کے ذریعے عیسائیوں پر تین باتوں میں سے ایک کو اختیارکرنے کے اعلانات کیے: پہلا جزیہ ادا کرنا، جو نہیں ادا کر سکتے وہ شہر چھوڑ دیں جبکہ شہر میں رہتے ہوئے جو بھی جزیہ دینے سے انکار کرے گا، اسے قتل کر دیا جائے گا۔
غلاموں کے گرم بازار ان سیاہ بخت لوگوں کے منافع کا ایک اور ذریعہ تھے، یہ بازار اسلام کے نام پر اور اسلامی قوانین اور اصولوں کو مسخ کر کے کھولے گئے تھے، درحقیقت اس انسانی خرید وفروخت کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔
کیونکہ اسلام انسانی معاشروں سے غلامی کو ختم کرنے اور انسانوں کو ان کی حقیقی حالت میں لوٹانے یعنی آزادی دلانے کے لیے آیا تھا، لیکن اس دور کے خوارج نے اسلام کے نام پر اسلام کے خلاف اقدامات کیے اور اپنے ناجائز کاموں کو اسلام کی تعلیمات قرار دیا۔
انسانی اسمگلنگ کے بازاروں میں غریب اور معصوم مسلمان خواتین اوربچوں کو دیگرغیرمسلموں کے ساتھ فروخت کیا گیا اوراس طرح یہ تمام لوگ خوارج کی مذہب دشمن پالیسیوں کا نشانہ بنے۔
۲۰۱۵ء میں ’’ڈیلی میل‘‘ نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا تھا کہ داعش کے دارالحکومت موصل میں جنسی غلاموں کے بازار میں افغانستان، پاکستان، چیچنیا اور لیبیا سے بھی خواتین کولایا گیا تھا۔
اس معاملے کی تصدیق بعد میں داعش کے چنگل سے آزاد ہونے والے قیدیوں نے بھی کی تھی، عراق کے شہر موصل اور شامی شہر رقہ کے بازار زبردست مالی فائدے کے علاوہ، اپنے فریب خوردہ خارجی افراد کو ترغیب دینے کا ذریعہ بھی تھے۔