جب سے مشرق وسطیٰ میں سالہاسال جنگوں کے بعد داعش کی فتنہ انگیز تنظیم اپنی نفرت انگیز نظریات کی وجہ سے خاتمے کے قریب پہنچی، چند ممالک اور افغانستان میں شکست خوردہ جمہوریت کے منصوبوں کے تحت انہوں نے افغانستان میں داخل ہونے کی کوشش کی اور یہاں اپنے وجود کا اعلان کرڈالا۔
داعشی خوارج، جو اسلام کی غلط تشریح کرتے اور اس پر عمل پیراہیں، اسلام جیسے مقدس دین کو بدنام کرنے کے لیے انتہائی منظم انداز میں کام کر رہے ہیں، افغانستان کے مسلمان عوام اور امارت اسلامی کے خلاف گذشتہ کئی سالوں سے جنگ کر رہے ہیں تاکہ اس سرزمینِ شہداء پر اپنا منحوس وجود مسلط کرسکیں۔
جمہوری حکومت کا خاتمہ بھی ملک میں داعش کے لیے ایک موقع ثابت ہوا، کیونکہ ملک میں سیکورٹی ادارے منتشر ہو چکے تھے، اس شعبے میں خلا پیدا ہو چکا تھا اور امارت اسلامی کی افواج ابھی تک شہروں میں مکمل طور پر مستحکم نہیں ہو پائی تھیں، جبکہ نظم و ضبط قائم کرنے کی کوششیں بھی سست روی کا شکار تھیں؛ داعش کی فتنہ انگیز تنظیم نے اس موقع کا فائدہ اٹھایا اور ملک کے مختلف صوبوں میں اپنے خفیہ ٹھکانے قائم کر لیے۔
سیکورٹی اداروں نے ملک میں امن کی بحالی اور فتنہ پرور عناصر کو کچلنے کے لیے کارروائیاں تیز کر دیں، جس کے نتیجے میں پچھلے تین سالوں کے دوران ملک کے ہر اُس علاقے میں جہاں داعشی خوارج اپنے غیر ملکی اتحادیوں کی رہنمائی میں ملک کو غیر مستحکم کرنے کے منصوبے بنا رہے تھے، آپریشنز بڑھا دیے گئے اور اس گروہ کو سختی سے کچل دیا گیا۔
خاص طور پر حالیہ عرصے میں داعش کے خلاف آپریشنز کیے گئے ہیں، اور وہ داعشی ارکان جو بغاوت سے باز نہیں آتے، انتہائی شدت سے کچلے جا رہے ہیں، سیکورٹی فورسز کی طرف سے اس گروہ کے بعض ملکی اور غیر ملکی ارکان کی پیشہ ورانہ انداز میں گرفتاری بھی توجہ کے قابل ہے۔
سیکورٹی فورسز کی ان منظم کاروائیوں نے ثابت کیا کہ وہ اسلام کے مخالف فسادی عناصر کے خاتمے میں کسی قسم کی کوتاہی یا سستی سے کام نہیں لیں گے اور کبھی بھی فتنہ گروں کو یہ اجازت نہیں دیں گے کہ وہ غیر ملکی قوتوں کے اشارے پر افغانستان کو غیر مستحکم کریں اور مسلم عوام کو اپنے ظلم، ستم یا اپنے شدت پسند نظریات کا شکار بنائیں۔