داعشی گروہ فی زمانہ جبکہ دنیا ظلم اور اندھیروں میں ڈوبی ہوئی ہے، اس انسانی المیے کی آگ میں مزید ایندھن ڈال رہا ہے اور اس پر مزید پٹرول چھڑک رہا ہے۔ اس گروہ کی لغت میں وحشت کے سوا کچھ نہیں ہے، ان کا نظریہ اور عمل درندگی پر مبنی ہے، جن کے ہاں معاشرتی زندگی اور اجتماعیت کا کوئی تصور موجود نہیں۔
اس گروہ کا ہر نظریہ اور حکمت عملی کسی بھی منصوبے کے حوالے سے سب سے پہلے یہ ہوتی ہے کہ کس طرح زیادہ سے زیادہ وحشت پھیلائی جا سکے، اور پھر اس وحشت کو عملی جامہ پہنانے کے طریقوں پر غور کیا جاتا ہے۔ ان کے فکری ڈھانچہ نری وحشت سے جڑا ہوا ہے اور ان کی موجودگی اور فلسفہ بقاء وحشت اور دہشت کا مرہونِ منت ہے۔
اگر اس گروہ کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو یہ بات واضح ہو جائے گی کہ یہ صرف دعویٰ نہیں بلکہ حقائق ہیں اور اس میں کوئی مبالغہ نہیں ہے؛ بنظرِ غائر دیکھا جائے تو یہ صرف وہ وحشیانہ کارروائیاں ہیں جو دنیا کے سامنے آئی ہیں، لیکن ابھی بھی بہت سے جرائم چھپے ہوئے ہیں جو میڈیا تک نہیں پہنچے، اور اگر کبھی یہ چھپے ہوئی وحشتیں بے نقاب ہو گئیں تو دنیا اس گروہ کا اصل چہرہ دیکھے گی۔
اس تحریک بلکہ اس کی بنیاد میں اتنی وحشت اور تباہی موجود ہے کہ اس گروہ کے ہر پہلو پر اس کا سایہ ہے، کہیں بھی اس میں امن، صبر اور مشترکہ زندگی کی کوئی علامت نظر نہیں آتی۔
انہوں نے مسلمانوں کے درمیان فتنے اور تفرقے کی آگ بھڑکائی، مسلمانوں کو ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کیا اور وہ اتحاد ختم کر دیا جو اسلامی امت کی بقا کے لیے انتہائی اہمیت رکھتا ہے۔ امت کا وہ اتحاد جو اسلامی معاشرت کی بقا کا ستون سمجھا جاتا ہے، داعش اس بنیادی ستون کو مٹانے اور امت مسلمہ کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
یہ ایک ایسا گروہ ہے جس نے وحشت کو اپنے عمل کا عنوان بنا لیا ہے، اور اس نے دنیا کے لیے ایک خونریز مؤقف اپنایا ہے، جس کا منبع یہ انتہا پسندانہ نظریہ ہے۔ یہ ایک ایسی سوچ ہے جس میں دوسروں کی موجودگی کے لیے کوئی جگہ نہیں اور خود پسندی کو اس کا سب سے اہم اصول سمجھا جاتا ہے۔
داعش کے نظریے میں تحمل، رواداری اور سماجی ہم آہنگی کی کوئی حیثیت نہیں ہے، وہ صرف اس کوشش میں ہیں کہ ہر چیز پر تسلط حاصل کریں اور یہی ان کا حقیقی مقصد ہے۔
جب نظام کی بات آتی ہے، تو ان کے ذہن میں صرف قوت اور وحشت کا تصور آتا ہے، نہ کہ عدل، نظم اور قانون؛ داعشی یقین رکھتے ہیں کہ وحشت کے ذریعے دنیا پر حکمرانی کی جائے، حالانکہ یہ سوچ اسلامی نظام کی اصل اقدار کے بالکل منافی ہے۔
اگر اسلامی نظاموں کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو یہ واضح ہوتا ہے کہ داعش اسلامی اصولوں کے برخلاف چل رہی ہے، اور اپنی خاص انتہاپسندانہ راہ پر گامزن ہے۔ حقیقت میں، یہ تضادات اس بات کو ظاہر کرتے ہیں کہ یہ گروہ آزادانہ سوچ سے عاری ہے اور دراصل غیروں کے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کی راہ پر گامزن ہے۔
یہ ایک ایسی تحریک ہے جسے آج اپنے فیصلوں میں کوئی اختیار نہیں، بلکہ یہ کسی اور کے ہاتھوں کٹھ پتلی بنی ہوئی ہے اور اجرتی گروپوں کی طرح غیر ملکی مفادات کو پورا کرنے میں جتی ہوئی ہے۔