ویسے تو اللہ کی عطا کی ہوئی تمام نعمتیں بہترین ہیں، لیکن کچھ ایسی نعمتیں بھی ہیں جنہیں نعمتوں کا اصل، منبع اور ماخذ کہا جا سکتا ہے، اور ان کے وجود سے بہت سی دیگر نعمتیں جنم لیتی ہیں، جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کعبہ کی بنیادیں رکھیں، تو اس کے بعد اس مبارک مقام کے حوالے سے انہوں نے یہ دعا کی:
رَبِّ اجْعَلْ هَذَا بَلَدًا آمِنًا… سورہ البقرہ: آیت: ۱۲۶
ترجمہ: اے میرے رب! اس شہر کو امن والا بنا دے!
اس آیت کی تفسیر میں امام رازی رحمہ اللہ تعالی نے اپنے تفسیر "مفاتیح الغیب” میں لکھا ہے: اس آیت میں مکہ مکرمہ کے رہائشیوں کے لیے امن اور کشادگی رزق کی دعا ہے، جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرف سے ہے؛ اس لیے کہ مکہ ایک ایسا شہر تھا جس میں نہ زراعت تھی، نہ درختوں یا پودوں کا وجود، اگر وہاں امن نہ ہوتا تو لوگ دور دراز سے مکہ مکرمہ نہ آتے اور وہاں زندگی گزارنا بہت مشکل ہوتا؛ مزید یہ کہ اللہ تعالی نے کعبہ مکرمہ کو لوگوں کے لیے زیارت و متبرک مقام بنا دیا تھا، لہذا لوگوں کے لیے اسی وقت کعبہ تک پہنچنا ممکن تھا جب راستے پُر امن ہوں اور کھانے پینے کی چیزیں سستی ہوں، اس آیت اور اس کی تفسیر سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ امن ایک ایسی نعمت ہے جس سے تمام تر خوشحالی اور فوائد جڑے ہوئے ہیں۔
دنیا بھر کے کاروباری افراد اپنی سرمایہ کاری ان ممالک میں کرتے ہیں جہاں سیکیورٹی کی صورتحال کافی بہتر ہو، کیونکہ مستحکم سیکیورٹی داخلی تاجروں، مزدوروں اور ترقیاتی منصوبوں میں کام کرنے والوں کے لیے طویل عرصے تک کام کرنے کے مواقع فراہم کرتی ہے؛ یہی وجہ ہے کہ ہر ملک کی حکومت اپنے تمام معاملات میں سیکیورٹی کو برقرار رکھنے کو سب سے زیادہ اہمیت دیتی ہے۔
افغانستان جیسے جنگ زدہ ملک میں امارت کے اقتدار میں آتے ہی امن و امان کی فضا قائم ہوئی اور ملک ترقی کی جانب تیزی سے گامزن ہے، اسی لیے داخلی اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کو افغانستان میں سرمایہ کاری کرنے کا حوصلہ پیدا ہوا ہے، اور ہر روز مختلف شعبوں میں کاروباری افراد اپنی سرمایہ کاری کر رہے ہیں، لیکن افغانستان کی موجودہ صورتحال اس کے واضح اور پوشیدہ دشمنوں کے لیے کسی طور بھی قابل قبول نہیں ہے۔
یہ کہ مغربی ممالک کے بہت سے مفادات افغانستان پر قبضے میں چھپی ہوئے ہیں اور ان مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے انہوں نے طویل المدت منصوبے تیار کیے ہیں جو مکمل ایک صدی پر محیط ہیں، اور مغربی ممالک کے قبضے کی پالیسی کو سیاستدانوں نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے: "مغربی جب دروازے سے نکلتے ہیں تو واپس کھڑکی سے داخل ہوتے ہیں”۔ افغانستان جو کہ سپر طاقتوں کے درمیان واقع ہے، اپنے اس جغرافیائی اور اسٹرٹیجک اہمیت کی وجہ سے مغربی ممالک کے لیے بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔
تقریباً نصف صدی تک ہم اور آپ گواہ رہے ہیں کہ مغربی ممالک نے مختلف منصوبوں کے ذریعے افغانستان کو تسخیر کرنے کی بھرپور کوشش کی، اور گذشتہ دو دہائیوں میں انہوں نے اس ملک کو فتح کرنے کے لیے ایک بہت ہی کمزور اور بے بنیاد وجوہات کی بنا پر افغان عوام کے ساتھ ایسی جنگ لڑی، جو عملی طور پر تو ہوئی، مگر حقیقت میں اس کا کوئی توازن برابر نہیں تھا، پھر جب افغانوں نے اللہ تعالی کے دین پر پختہ یقین کے ساتھ ثابت قدمی اختیار کی، تو انہوں نے اس ازلی دشمن کے ساتھ خالی ہاتھوں سے، لیکن پختہ عزم کے ساتھ جہاد کیا، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اللہ تعالی نے مومنوں کو فتح دی اور امریکیوں کو اپنے وطن سے شرمندہ کرکے نکال دیا۔
اب امریکی اپنی شکست اور دروازے سے باہر نکالے جانے کے بعد دوبارہ کھڑکی سے اندر آنا چاہتے ہیں، اسی پالیسی کے تحت امریکی افغانستان کی موجودہ سیکیورٹی کو داعش کے منصوبے کے ذریعے خراب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، اور اگر خدانخواستہ ان کی یہ خواہش پوری ہو گئی اور افغانستان کی یہ مستحکم سیکیورٹی متاثر ہو گئی، تو اس کے ساتھ جڑی تمام خوشحالیاں بھی اختتام پذیر ہوسکتی ہیں۔