داعش خراسان شاخ صرف امریکہ کی جانب سے افغانستان میں امن کو درہم برہم کرنے کے لیے ایک منصوبہ ہے، اس کے علاوہ داعش کا نہ کوئی واضح اور قابل قبول پالیسی ہے، نہ ہی جنگ کے لیے کوئی مخصوص پلان یا میدان؛ بلکہ یہ ہمیشہ دنیا کے مختلف ممالک میں مظلوم مسلمانوں کو قتل اور ظلم وستم کا نشانہ بناتے آئے ہیں، اور ان ہی ممالک میں امریکی مقاصد کے حصول کے لیے کام کرنے والے اور غلام ثابت ہوئے ہیں۔
غزہ کے مظلوم مسلمانوں کے خلاف انہوں نے بیان جاری کیا اور کہا: ہم اسرائیل سے پہلے آپ (غزہ کے مسلمانوں) کو ماریں گے اور پھر ان (اسرائیل) کے ساتھ جنگ کریں گے۔
اور امارت اسلامی کے خلاف ہمیشہ ایسا ہی مؤقف اختیار کیا ہے، کہ ان کی تمام تر توجہ افغانستان میں مسلمانوں اور اسلامی نظام کو کمزور کرنے اور مٹانے پر ہے۔
اب بھی انٹرنیٹ پر وہ مستند ریکارڈ موجود ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ جب ننگرہار کے اچین اور فاریاب کے درزاب اضلاع میں داعش امارت اسلامی کے مجاہدوں کے دباؤ میں آئی، تو وہ جمہوری حکومت کے چرنوں میں پناہ لینے پر مجبور ہوگئے، وہی جمہوری حکومت جس کے ساتھ امریکیوں نے مل کر امارت اسلامی کے خلاف جنگ کی تھی، اور جمہوری حکومت نے پھر ان داعشیوں کو جنگ کے میدان سے محفوظ علاقوں میں منتقل کر دیا۔
اب جبکہ افغانستان کا چپہ چپہ امارت اسلامی کے کنٹرول میں آچکا ہے، داعش نے امریکیوں کی مدد سے ہمسایہ ممالک میں اپنے تنظیمی اور عملی سرگرمیوں کے لیے مراکز قائم کیے ہیں اور اپنے جنگ کا میدان صرف افغانستان کو منتخب کیا ہوا ہے جہاں عملاً اسلام نافذ ہے، لیکن ان ممالک میں وہ کوئی حملہ نہیں کرتے جہاں غیر اسلامی نظام نافذ ہیں۔
جمہوری حکومت کے دوران جب امارت اسلامی داعش خراسان کے ظہور کے ساتھ ہی عملی جنگ میں مصروف تھی، ’’طلوع نیوز‘‘ نے داعش کی خراسان شاخ پر ایک دستاویزی فلم بنائی تھی اور اس میں جمہوریت کے حکام نے پوری کوشش کی تھی کہ داعش کو اپنے خیال میں (حقانی نیٹ ورک) سے جوڑ کر اپنے آقاؤں (امریکیوں) کے منصوبے کو ناکام نہ ہونے دیں؛ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ یہ واضح ہوگیا کہ یہ ایک ناکام کوشش تھی۔
ان کی خاص دشمنی اس بات سے بھی ثابت ہوئی کہ ایک بار انہوں نے وزارت داخلہ کی مسجد میں خلیفہ سراج الدین صاحب پر حملہ کیا، جس میں الحمدللہ وہ حملے سے محفوظ رہے، مگر بہت سے نمازی شہید ہوگئے، اور پھر انہوں نے شہید سعید حاجی خلیل الرحمن رحمہ اللہ تعالی پر حملہ کیا جس کے نتیجے میں ان کے ساتھ ساتھ دیگر افراد بھی شہید ہوئے۔
اب یہ بات اچھی طرح ثابت ہو چکی ہے کہ داعشی عناصر امریکی منصوبہ ہیں، امریکی چاہتے ہیں کہ افغانستان کا مستحکم امن خراب کرنے کے لیے یہ منصوبہ عمل میں لایا جائے اور اس کے ذریعے تمام خوشیوں کو بدبختیوں میں تبدیل کیا جائے، تاکہ ایک بار پھر افغانستان میں آگ و خون کی بارش ہو اور اپنے مذموم مقاصد کو عملی جامہ پہنایا جاسکے؛ مگر امریکیوں کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ اپنے فوجیوں اور مکمل جنگی مشینری کے باوجود وہ اپنے مقاصد حاصل کرنے کے بجائے انہیں شکست فاش کا سامنا کرنا پڑا، اب داعش کے حوالے سے بھی اگر اللہ تعالیٰ کی مدد شامل حال ہوئی، تو وہ اپنے مقاصد کبھی حاصل نہیں کر سکیں گے۔
داعش نہ افغانستان میں جڑیں رکھتی ہے، نہ ہی اس نے کبھی ایسی کاروائیاں یا اچھے کام کیے ہیں کہ عوام ان کی طرف مائل ہو، خاص طور پر جب مذکورہ بالا دو اضلاع اور کنڑ میں ظاہر ہوئے، تب انہوں نے ایسی کوئی کارروائی نہیں کی جس سے عوام خوش ہوتے یا ان پر بھروسہ کرتے؛ امریکیوں کی یہ حرکتیں پچھاڑے گئے شخص کی ہاتھ پیر ہلانے کی طرح ہیں، جس کا نہ کوئی فائدہ ہوتاہے نہ ہی کوئی کامیابی حاصل ہوسکتی ہے۔