اس قسط میں ہم کوشش کریں گے کہ مغربی ممالک میں اسلاموفوبیا کے عوامل کا مختصر جائزہ لیں اور اس میں داعش کے براہ راست اور بلواسطہ کردار کا بھی جائزہ لیں۔
۱۔ مسلمانوں سے براہ راست روابط کا فقدان
داعش جیسوں کی حرکتوں کی وجہ سے عالمی سطح پر اسلام سے خوف کا احساس بڑھ چکا ہے، کیونکہ مغربی دنیا کے عوام مسلمانوں سے براہ راست روابط نہیں رکھتے اور اگر وہ اسلامی اقدار کا مطالعہ کریں تو ان میں اسلام سے محبت پیدا ہو جاتی ہے لیکن جب وہ داعش کے وحشتناک اور تخریبی اعمال کو دیکھتے ہیں تو اسلام کے بارے میں ان کے تصورات بدل جاتے ہیں۔
درحقیقت، مغربی دنیا کے عوام اور مسلمانوں کے درمیاں قریبی اور براہِ راست تعامل کے فقدان کی وجہ سے وہ داعش کو اسلامی فکر و نظریے کی حقیقی شکل سمجھ بیٹھتے ہیں اور یہ خیال کرتے ہیں کہ اگر مسلمان اقتدار میں آئے تو وحشت، قتل و غارت اور تخریب کاری کا دور دورہ ہو گا۔
۲۔ تخریبی اور انتہا پسند تحریکیں
مغربی دنیا کے عوام جب ایسی حرکتیں اور اعمال دیکھتے ہیں جن کا دور سے بھی اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، تو وہ یہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ اسلام ہی ایسا ہے۔ دوسری جانب اس کی وجہ سے عام مسلمانوں اور مغربی دنیا کی عوام کے درمیان تعلقات کو بھی نقصان پہنچتا ہے، کیونکہ مغربی عوام اور ان کا میڈیا یہ تشہیر کرنے لگتے ہیں کہ اگر اسلام دنیا میں حاکم ہوا تو داعش اور اس جیسی ہزاروں جماعتیں مزید مضبوط ہو جائیں گی۔
لوگ داعش کے اعمال کو دیکھ کر اس اسلامی نظام سے نفرت کرتے ہیں جس کا نتیجہ ان کی نظر میں ایسی وحشت ہوتا ہے اور وہ اس سے دور بھاگتے ہیں۔
۳۔ سیاسی ذرائع
ان عوامل میں سے ایک اور جو اسلاموفوبیا کے پھیلاؤ کو آسان بناتا ہے وہ سیاسی حکمرانوں کے مفادات ہیں۔ وہ لوگ جو اسلامی نظام کی حکمرانی سے اپنے سیاسی فوائد کو خطرے میں دیکھتے ہیں، ان کی ہمیشہ کوشش ہوتی ہے کہ اسلام کے بارے میں لوگوں میں خوف پھیلائیں، داعش جو دنیا میں اس طرح کے کاموں کے لیے اہم مہرہ ہے، اسلاموفوبیا کے عمل کو مضبوط بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔
وہ لوگ جو مختلف معاشروں میں ناپاک سیاست اور بھاری اخراجات کے زور پر اقتدار تک پہنچتے ہیں، اسلام پسندی اور اسلام کی اشاعت کے سخت مخالف ہیں کیونکہ اسلام اور اس کا عدل اگر عام ہو جائے تو ان کی مسندِ اقتدار جاتی رہے گی، ان کی شان و شوکت ختم ہو جائے گی اور لوگ ان کے ظلم، استحصال اور استبداد سے آزاد ہو جائیں گے۔
مغربی عوام کی اکثریت خوابِ غفلت میں ہے اور سمجھتے ہیں کہ دنیا کی سب سے بہترین زندگی وہی گزار رہے ہیں، لیکن درحقیقت وہ عالمی طاقتوں کے جال میں پھنسے ہوئے ہیں۔ اسلام جو حق اور حقیقت کا دین ہے، ایسے حاکم کو مسندِ اقتدار پر بٹھاتا ہے جو صرف لوگوں کی خدمت و اصلاح کے لیے وقف ہو، اور اس کے ذہن میں کچھ اور نہ ہو۔ یہ ایک ایسا نظام ہے جو لوگوں کی خوشحالی چاہتا ہے اور انسانیت کی فلاح کے لیے کام کرتا ہے۔
تو ان اقدار و افکار کے ساتھ، مغربی مقتدر طبقہ کیسے اسلام کو برداشت کر سکتا ہے؟ اسی لیے وہ داعش اور اس جیسی دیگر جماعتیں اسلامی معاشروں میں پیدا کرتے ہیں، تاکہ لوگ سوچیں کہ اگر اسلام اقتدار میں آ گیا تو دنیا کی حالت بھی ان علاقوں جیسی ہو جائے گی جہاں داعش عارضی طور پر حاکم تھی۔
ان علاقوں میں جہاں داعش نے حکمرانی کی، قتل و غارت، تباہی، انتہا پسندی، وحشت اور بربریت حاکم تھی، اور یہ وہ چیزیں ہیں جنہیں مغرب اسلام کے ساتھ منسلک کرتا ہے تاکہ لوگوں کے ذہنوں کو اسلام سے دور کرے۔