۲۶۲ ہجری میں مکہ مکرمہ کے گورنر محمد بن ہاشم کا قاصد سلطان ارسلان کے دربار میں پہنچا۔ قاصد نے اطلاع دی کہ مکہ مکرمہ کے خلیفہ القائم پاشا اور سلطان ارسلان کے نام پر خطبہ دیا جائے اور آئندہ عبیدی (فاطمی) سلطنت کے بجائے عباسی خلافت کے احکمات کو عملی جامہ پہنایاجائے۔
قاصد نے مزید کہا کہ مکہ مکرمہ میں آئندہ شیعہ اذان میں "حی علی العمل” اور اسی طرح کے دیگر الفاظ نہیں پڑھیں گے۔ سلطان نے مکہ مکرمہ کے نمائندے کا بہت احترام کیا اور ۳۰ ہزار دینار گورنرِ مکہ کو بھیجے اور کہا: "اگر مدینہ کا والی بھی ایسا کرے، تو میں اس کی خدمت میں ۲۰ ہزار دینار پیش کروں گا۔”
الپ ارسلان کی ان فتوحات نے رومی بادشاہ دومانوس دیوجینس کو بے چین کر دیا اور اس نے پختہ ارادہ کیا کہ وہ ہر قیمت پر اپنی سلطنت کا دفاع کرے گا۔ اس نے اپنی افواج کو سلجوقیوں کے خلاف تیار کیا؛ سلجوقی اور رومی افواج کے درمیان خونریز جنگیں ہوئیں، اور "ملا ذکرت” کے نام سے مشہور جنگ جو کہ بہت اہمیت رکھتی ہے ۴۶۳ (۱۰۷۱ء) ہجری میں ہوئی۔
ابن کثیر نے اس بارے میں لکھا: اس جنگ میں روم کے بادشاہ دومانوس نے بہت زبردست اور ایک بڑی تعداد میں افواج روانہ کی تھیں، ان فوجوں میں روم، روس، برطانیہ اور دیگر ممالک کے فوجی اور سپاہی بھی شامل تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ دومانوس نے جنگی تیاری بھی مکمل کر رکھی تھی، ان افواج میں ۳۵ پطرک (بطریق) تھے اور ہر پطرک کے ساتھ دو لاکھ سوار تھے۔ اسی طرح اس فوج میں ۳۵ ہزار فرانسیسی اور اس کے علاوہ ۱۵ ہزار دیگر جنگجو بھی تھے جو قسطنطنیہ سے تھے۔
اس کے علاوہ ایک لاکھ نقاب پوش اور ایک لاکھ زمین کھودنے والے بھی اس فوج میں شامل تھے، اس کے علاوہ سو افراد روز جاریان (روزانہ خوراک تقسیم کرنے والے) اور ۳۰۰ گائے کے بگھی بھی تھے، جو فوج کے لباس، ہتھیار، گھوڑوں کی زینیں، منجنیقیں اور قلعہ توڑنے والے آلات منتقل کرتے تھے۔ ان منجنیقوں میں ایک ایسا منجنیق بھی تھا جسے ۱۲۰۰ افراد چلاتے تھے۔ دومانوس نے یہ ساری فوجیں اسلام اور مسلمانوں کے خاتمے کے لیے تیار کی تھیں۔
اپنی طاقت پر اتنا فخر کرتا تھا کہ جنگ سے پہلے اس نے اسلامی علاقوں کو اپنے افراد کے نام پر تقسیم کرلیا تھا، اس کا منصوبہ یہ تھا کہ جب عراق اور خراسان کے علاقے فتح کر لیے جائیں گے، تو ایک ہی حملے میں شام کے علاقوں کو مسلمانوں سے واپس لے لیں گے؛ وہ یہ منصوبے بنا رہے تھے، لیکن تقدیر ان کے ساتھ کھیل رہی تھی اور ان کی حالت پر یہ آیت صادق آرہی تھی:
[ العَمْرُكَ أَنَّهُمْ لَفِي سَكْرَتِهِمْ يَعْمَهُونَ ] (الحجر: ۷۲)۔
سلطان ارسلان اور رومی فوج بدھ کے روز الزھوہ کے مقام پر صف آراء ہوئے۔
ذوالقعدہ مہینے کے پانچ دن باقی تھے، ارسلان نے جب رومی فوج کی تعداد دیکھی تو وہ پریشان ہوگیا، لیکن فقیہ ابو النصر محمد بن عبدالمالک بخاری، جو ایک حنفی عالم تھے، نے سلطان کو مشورہ دیا اور کہا: "اے بادشاہ! جب جمعے کے دن خطبہ دیتے ہوئے مجاہدین کے لیے دعا کریں، تو اسی وقت دشمن پر حملہ کردیں، اللہ تعالی مسلمانوں کی دعاؤں کی برکت سے تمہیں فتح دے گا۔”
جب دونوں فوجیں میدان جنگ میں اتریں تو سلطان ارسلان اپنے گھوڑے سے اترا، زمین پر سجدہ ریز ہوا؛ اور پھر اللہ تعالیٰ سے فتح ونصرت کی دعا مانگنے لگا، اس جنگ میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو عظیم فتح سے نوازا، صلیبی شکست کھاگئے اور اسلامی افواج کے ہاتھوں رومی بادشاہ اور ان کا سپہ سالار دومانوس گرفتار ہوئے۔
دوماس کو ایک رومی غلام نے گرفتار کرکے سلطان الپ ارسلان کے سامنے پیش کیا، سلطان نے اپنے ہاتھوں سے اسے تین کوڑے مارے اور اس سے پوچھا؛ اگر تم مجھے گرفتار کرتے تو مجھ سے کیسا سلوک کرتے؟ دوماس نے کہا: میں آپ سے بہت برا سلوک کرتا۔
الپ ارسلان نے کہا: میرے بارے میں کیا خیال ہے کہ میں تم سے کیسا سلوک کروں گا؟
دوماس نے کہا: مجھے قتل کروگے یا مجھے بے عزت کروگے یا پھر مجھے معاف کردوگے اور یا پھر مجھ سے فدیہ لے کر چھوڑدوگے۔
الپ ارسلان نے کہا: میرا ارادہ ہے کہ تم سے فدیہ لے کر آزاد کردوں، سلطان نے اس سے ڈیڑھ لاکھ دینار لے کر آزاد کردیا؛ واپس جاتے ہوئے سلطان نے دوماس کو مشروبات پیش کیے، دومانوس سلطان کے اس اچھے برتاؤ اور سلوک سے کافی متاثر ہوا اور اس کے دل میں سلطان کی عظمت مزید بڑھ گئی۔
سلطان نے مزید احسان کرتے ہوئے اسے فدیے سے دس ہزار دینار سفرِ کے لیے دیے، اور قید شدہ بطریقوں کا ایک گروہ آزاد کر کے اسے بادشاہ کے ساتھ ہم سفر کرایا تاکہ بادشاہ اکیلا سفر نہ کرے۔ اس کے علاوہ سلطان نے اپنی طرف سے ایک حفاظتی دستہ بھی اس کے ساتھ بھیجا تاکہ بادشاہ کو کسی قسم کا نقصان نہ پہنچے۔ ان محافظوں کے ساتھ ایک پرچم بھی تھا جس پر "لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ” لکھا ہوا تھا۔
الپ ارسلان نے ایک چھوٹی سی فوج کی مدد سے جس کی تعداد پندرہ ہزار سے زیادہ نہیں تھی، دومانوس کے ایک لاکھ فوجیوں کو شکست دی، یہ واقعہ کوئی معمولی واقعہ نہیں تھا؛ اس جنگ نے رومیوں کی طاقت کو شدید نقصان پہنچایا، اور ایشیا کے بہت سی خطوں میں رومی سلطنت کے اثرات کو سخت ضرب لگی۔ یہ وہ علاقے تھے جنہیں رومی سلطنت کی بنیاد خیال کیا جاتا تھا، اور سلجوقیوں کی اس عظیم فتح نے بازنطینی حکومت کے علاقوں میں تاریخی طور پر کمزوری پیدا کرنا شروع کی، یہاں تک کہ اس قدیم سلطنت کا خاتمہ عثمانیوں کے ہاتھوں ہوا۔
الپ ارسلان ایک متقی اور پرہیزگار انسان تھا، جنگ میں فتح کے لیے تمام مادی اور معنوی وسائل سے استفادہ کرتا تھا، اور علماء کی مجلسوں میں رہنے کی وجہ سے کافی نیک بخت تھا؛ وہ ان کے نصیحتیں سنتا اور ان پر عمل کرتا تھا۔
امت مسلمہ کا یہ عظیم سپہ سالار ایک باغی کے ہاتھوں شہادت کے اعلی مرتبے پر فائز ہوا، اس باغی کا نام یوسف خوارزمی تھا۔ سلطان الپ ارسلان ۴۶۵ (۱۰۷۲ء) ہجری ربیع الاول کی دس تاریخ کو شہید ہوا اور مرو شہر میں اپنے والد کے پہلو میں ان کی تدفین عمل میں آئی، انہوں نے اپنے جانشین کے طور پر ملک شاہ کو مقرر کیاتھا۔