ہر تمدن کا ایک پرچم ہوتا ہے، جو اپنی شناخت اور مقصد کا نشان ہوتا ہے؛ جب اسلام کا سورج مکہ مکرمہ پر اپنی کرنیں بکھیر رہا تھا، اور دنیا کو منور کرنے کے لیے اسلام کا نور مدینہ منورہ کی طرف بڑھا، تو پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ میں اسلامی نظام کی بنیاد رکھی، اور اس کے لیے دو پرچموں کا انتخاب کیا جن میں سے ایک سفید تھا اور دوسرا سیاہ۔
یہ پرچم جو کلمہ طیبہ اور مہرِ نبوی سے مزین تھے، ہر معرکے میں اسلامی لشکروں کے پاس ہوتے، اور جنگ، مذاکرات، صلح اور زندگی کے تمام میدانوں میں امتِ مسلمہ کے اوپر سایہ ڈالتے اور عزت کا نشان بنے رہتے۔
وہ سیاہ پرچم جس پر مہرِ نبوت درج اور کلمہ طیبہ سے مزین ہے؛ یہ بدر اور خیبر کے فاتحین کا پرچم تھا، حضرت ابوبکر و فاروق اعظم کا پرچم تھا، اور سیف اللہ المسلول حضرت خالد بن ولید کے معرکوں کا نشان تھا۔ یہ وہ پرچم تھا جو فاتح صلاح الدین ایوبی نے حطین کے میدان میں گمنام شہداء کے خون سے رنگین ہوا اور مسجد اقصیٰ کے بلند میناروں پر نصب کیا گیا۔
پوری تاریخ اسلام میں خلافتوں اور سلطنتوں کا نشان بن گیا، یہاں تک کہ مغرب کے استعماری اور فکری جنگوں کے نتیجے میں یہ امت کے ذہنوں سے محو ہوگیا اور سائیکس و ٖپیکو، ڈیورنڈ اور میک مہان کی دجالی سرحدوں نے امت کو ٹکڑوں میں تقسیم کردیا۔ ہر ٹکڑے کو ایک محدود جغرافیائی علاقے میں محصور کر کے، مختلف رنگ برنگے پرچموں کو متعلقہ قوم کی شناخت، نشان اور علامت کے طور پر منتخب کیا گیا۔
یہاں تک کہ اسلام کے یہ مقدس پرچم جو صدیوں سے مسلمانوں کے ذہنوں سے بھلا دیے گئے تھے اور نسلیں ان سے نابلد تھیں، عمر ثالث رحمہ اللہ نے اسلام کے سفید پرچم کو اور اسامہ بن لادن تقبلہ اللہ نے امت کے سیاہ پرچم کو دوبارہ اسلام کے جغرافیے میں لہرا دیا۔
مہرِ نبوت سے مزین سیاہ پرچم کے سایے تلے پوری امت میں جہاد اور قتال کا ایک نیا باب کھلا، مراکش سے فلسطین تک، اور صومالیہ سے برصغیر تک جوانوں نے میدان جنگ میں قدم رکھا، جہاد کا مقدس قافلہ ایک متحد قیادت اور مرکزیت کے تحت جمع ہوا، اور اتحاد و اتفاق کی ایک علامت بن گیا۔
کلمہ طیبہ سے مزین سیاہ پرچم کے ساتھ دنیا میں اس کی نشر و اشاعت کی نیت سے امت کے صادق و مخلص بندوں نے نیو یارک اور پینٹاگون کے بلند و بالا عمارتوں کو منہدم کیا، اور آسمانِ امریکہ میں کلمۃ اللہ کی بلندی کے لیے خود کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے قربان کر دیا۔
ہمارا جہاد فتح کے دروازے تک پہنچ چکا تھا کہ اچانک داعشی خوارج کے نام پر ایک دجالی فتنے نے سر اٹھایا، جس نے اسلام کے مبارک نام کا استعمال کرتے ہوئے اسلام کے سفید دامن پر بدنامی کے داغ لگا دیے۔
امتِ مسلمہ کو پیچھے دھکیلنے اور شکست سے دوچار کرنے کے لیے انہوں نے اسلام کے سیاہ پرچم کو اپنا پرچم قرار دیا، اور خلافت، شریعت اور اسلام کی عظمتِ رفتہ حاصل کرنے کے دعوے کے ساتھ ان مقدس نعروں سے غلط فائدہ اٹھاتے ہوئے دنیا بھر سے ہزاروں نوجوانوں کو اپنی صفوں میں شامل کیا اور انہیں ایک تباہ کن فتنے میں ملوث کر دیا۔
جہاد کے نام پر انہوں نے ایسی وحشتیں سر انجام دیں کہ قلم بھی ان کے بارے میں لکھنے سے عاجز ہے اور زبان بھی ان کے بارے میں بولنے سے، انہوں نے جہاد کے مقدس نام کے ذریعے نفرتیں پیدا کیں، اور اسلام کے مقدس دین کو قتل، دہشت گردی اور جنگوں کا دین بنا کر دنیا کے سامنے پیش کیا۔
آج بھی جب سیاہ پرچم دیکھا جاتا ہے، لوگوں کے ذہنوں میں داعشی خوارج آ جاتے ہیں، اور اس مقدس پرچم کو ان کے ساتھ جوڑا جاتا ہے، لیکن یہ درست نہیں ہے۔ یہ اسلام کا پرچم ہے، یہ قادسیہ اور یرموک کے پرچم ہیں، جن کے سائے تلے فارس اور روم کی عظیم عظیم سلطنتیں مسلمانوں کے ہاتھوں شکست سے دوچار ہوئیں۔ یہ پرچم خشکی اور سمندروں پر حکمرانی کرتا تھا، اور یہی پرچم ۸۰۰ سال تک اسلامی اندلس میں قرطبہ، غرناطہ اور طلیطلہ کے بلند میناروں پر لہراتا رہا تھا اور امت کے فخر کا نشان تھا۔
اصحابِ قلم و قرطاس کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ امتِ مسلمہ اور دنیا کو اس غلط فہمی کے بارے میں آگاہ کریں، تاکہ ہمارے اس عظیم ورثے کی حقیقت اور ہمارے اقدار اسی طرح برقرار رہیں جیسے وہ ہمیشہ سے رہے ہیں۔