امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ کل منگل کو کانگریس میں اپنی پہلی تقریر میں دعویٰ کیا کہ کابل کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر ۲۰۲۱ء میں ہونے والے حملے کا "اعلیٰ سطحی ذمہ دار دہشت گرد” پاکستان میں پکڑا گیا ہے۔
اس بیان کے بعد، امریکی میڈیا نے خبر دی کہ محمد شریف اللہ (عرف جعفر) افغانستان کی سرحد کے قریبی علاقے میں پاکستانی خفیہ ایجنسی کے ہاتھوں اس وقت پکڑا گیا جب سی آئی اے نے اس کے بارے میں معلومات فراہم کی تھیں۔ ٹرمپ نے اپنی تقریر میں کہا کہ پاکستان نے محمد شریف کو ان کے حوالے کیا ہے اور وہ امریکہ میں مقدمے کا سامنا کرے گا۔
المرصاد نے اپنے ذرائع سے پکڑے جانے والے شخص کے بارے میں معلومات حاصل کی ہیں۔ معلومات ظاہر کرتی ہیں کہ محمد شریف کابل کے حملے کا منصوبہ ساز نہیں ہے۔
ذرائع کے مطابق، محمد شریف اللہ کو ۲۰۱۹ء میں پکڑا گیا تھا اور ۱۵ اگست کو جیلوں کے ٹوٹنے کے ساتھ ہی وہ جیل سے فرار ہو گیا۔ وہ قید ہونے سے پہلے اور رہائی کے بعد ایک عام ترصد (ہدف کی سرویلنس یا ریکی) کرنے والا فرد تھا، لیکن جب فتح کے بعد امارت اسلامیہ افغانستان کی سیکیورٹی فورسز کی کاروائیوں میں داعش کی قیادت اور اہم شخصیات کو ختم کر دیا گیا تو شریف اللہ کو داعش کی طرف سے مجبوراً ایک بڑی ذمہ داری سونپی گئی۔
محمد شریف کون ہے؟
المرصاد ذرائع کے مطابق، محمد شریف یا جعفر افغانستان میں داعش کی خود ساختہ خلافت کے اعلان کے بعد اس گروہ میں شامل ہوا۔ ۲۰۱۹ء میں، ایک حملے میں سابقہ کابل حکومت نے گرفتار کیا۔ وہ ۲۰۲۱ء میں جیل سے باہر آیا۔ جب ۲۰۲۲ء اور ۲۰۲۳ء میں امارت اسلامیہ افغانستان کی سیکیورٹی فورسز نے داعش کی قیادت اور اہم شخصیات کو ختم کر دیا، تو میدان جعفر کے پاس رہ گیا اور خراسان شاخ کی سیکیورٹی کی ذمہ داری سونپی گئی۔
وہ افغانستان میں سیکیورٹی فورسز کی سخت نگرانی اور کارروائیوں کے میں پھنسا ہوا تھا، اس لیے حفاظت کی غرض سے پاکستان فرار ہو گیا۔
ذرائع کے مطابق محمد شریف داعش کی صفوں میں جعفر کے علاوہ انجینئر شریف اور اجمل کے ناموں سے بھی مشہور تھا، گزشتہ عرصے میں جب وہ سیکیورٹی کا ذمہ دار تھا تو وہ اسحاق زئی کے نام سے ٹیلی گرام اکاؤنٹ کے ذریعے اپنے تحت افراد کی قیادت کر رہا تھا۔
کابل ہوائی اڈے پر حملے کے اصل ذمہ دار کون تھے؟
۹ اپریل ۲۰۲۳ء کو نیمروز کے مرکزی شہر زرنج میں امارت اسلامیہ افغانستان کی انٹیلیجنس ڈائریکٹوریٹ کی کارروائیوں میں ایک شخص عبدالله کابلی کو ہلاک کیا گیا۔ ہلاک ہونے والا عبدالله خراسان شاخ میں مہاجرین کے ادارے کا ذمہ دار تھا۔
۵ اپریل ۲۰۲۳ء کو ہرات شہر کے نویں سیکورٹی ڈسٹرکٹ میں مجاہدین کی کاروائیوں میں ایک شخص ڈاکٹر حسین کو ہلاک کیا گیا۔ ڈاکٹر حسین داعش کی خراسان شاخ کی اصطلاح میں "استشہادیوں کے کتیبے” کا ذمہ دار رہا، ہلاکت کے وقت وہ خراسان شاخ کی مرکزی شوریٰ کا رکن تھا اور مغربی زون میں عسکری ذمہ دار کی حیثیت سے بھی کام کر رہا تھا۔
ڈاکٹر حسین اور عبدالله کابلی کی ہلاکت کے بعد، وائٹ ہاؤس کے ترجمان نے کہا کہ یہ کابل ہوائی اڈے پر حملے کے منصوبہ ساز تھے جو امارت اسلامیہ افغانستان کی کاروائیوں میں مارے گئے ہیں۔
کابل حملے میں محمد شریف (جعفر) کے کردار پر مبالغہ کیوں کیا جا رہا ہے؟
ٹرمپ انتظامیہ اور پاکستان دونوں کابل ہوائی اڈے پر حملے میں محمد شریف کے کردار سے متعلق مبالغہ آرائی سے کام لے رہے ہیں تاکہ اپنے مقاصد حاصل کر سکیں۔ ٹرمپ چاہتا ہے کہ اپنے سابق حریف کو کمزور دکھائے اور محمد شریف کے کردار سے متعلق مبالغہ آرائی کر کے اپنے اس دعوے کو ثابت کرے کہ امریکہ اور امریکیوں کو سب سے زیادہ اہمیت دی جاتی ہے اور یہ گرفتاری اس کا بہترین ثبوت ہے۔
دوسری طرف پاکستان یہ کوشش کر رہا ہے کہ امریکہ کے اشاروں پر چل کر ٹرمپ انتظامیہ سے اپنے تعلقات بہتر کرے اور ایک بار پھر "دہشت گردی کے خلاف جنگ” میں امریکہ کا اتحادی بن جائے – حالانکہ پاکستان میں محمد شریف کا وجود اور گرفتاری خود پاکستان پر سوالات اٹھاتی ہے اور ان رپورٹس کی تصدیق کرتی ہے کہ خراسانی خوارج نے اپنی پناہ گاہیں پاکستان منتقل کر لی ہیں اور وہاں اپنے حملوں کی منصوبہ بندی اور انہیں عملی جامہ پہناتے ہیں۔