چند روز قبل، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کانگریس کے اجلاس سے خطاب کے دوران اعلان کیا کہ پاکستان نے کابل ایئرپورٹ حملے کے مشتبہ منصوبہ ساز محمد شریف اللہ (جو جعفر کے نام سے مشہور ہے) کو گرفتار کر کے امریکا کے حوالے کر دیا ہے۔ اس اعلان کے بعد، سوشل میڈیا اور عالمی سطح پر مختلف حلقوں میں ایک بار پھر پاکستان کے کردار پر بحث چھڑ گئی۔ لیکن اصل سوال یہ ہے کہ کیا یہ گرفتاری واقعی دہشت گردی کے خلاف ایک بڑی کامیابی ہے، یا پھر یہ صرف ایک سیاسی چال اور فریب ہے، جس کے ذریعے پاکستان اپنے سفارتی مفادات حاصل کرنا چاہتا ہے؟
یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ پاکستان نے امریکی قیادت کو دھوکہ دیا ہو، بلکہ ماضی میں بھی کئی بار امریکی حکام کو گمراہ کر کے اپنی کارکردگی کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا ہے۔ نائن الیون (گیارہ ستمبر) کے واقعے کے بعد، پاکستان نے سینکڑوں مجاہدین امریکا کے حوالے کیے اور اربوں ڈالر کی امداد حاصل کی، لیکن دوسری طرف، اس نے درجنوں ایسے افراد کو بھی ’’مجاہدین‘‘ کے نام سے امریکا کو بیچا تھا جن کا جہادی گروپوں سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ پاکستان کے سابق صدر جنرل پرویز مشرف نے اپنی کتاب میں لکھا کہ ان افراد کے بدلے پاکستان نے فی کس پانچ، پانچ ہزار ڈالر حاصل کیے اور امریکا کو دھوکہ دیا۔
اب ایک بار پھر، پاکستان ٹرمپ کو ایک ایسا ’’دہشت گرد‘‘ سونپ رہا ہے جس کی گرفتاری کو ایک بڑی سفارتی اور سیاسی کامیابی کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے، لیکن حقیقت میں یہ محض ایک بڑی سیاسی بساط کا ایک چھوٹا سا مہرہ ہے۔
داعش خراسان کی پاکستان میں سرگرمیاں:
اصل سوال اور غور طلب بات یہ نہیں کہ محمد شریف اللہ گرفتار ہوا، بلکہ یہ ہے کہ داعش خراسان پاکستان میں کس طرح سرگرم عمل ہے؟ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ پاکستان داعش خراسان کی شاخ کو افغانستان میں اپنی پراکسی کے طور پر استعمال کر رہا ہے، اور اس حوالے سے پاکستان کے اس کردار پر متعدد شواہد موجود ہیں۔
جب امارت اسلامی نے افغانستان میں اقتدار حاصل کیا تو اس نے داعش کے خلاف سخت کاروائیاں کیں اور اس گروہ کے متعدد اعلیٰ رہنماؤں کو ہلاک کیا۔ اس کے بعد، داعش کے باقی ماندہ عناصر افغانستان سے فرار ہو کر پاکستان میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے، جہاں انہوں نے ایک محفوظ ماحول میں اپنی کاروائیوں کی منصوبہ بندیاں شروع کر دیں۔
حالیہ دنوں میں افغانستان اور خطے میں ہونے والے متعدد حملے ( قندھار میں بینک پر حملہ، بغلان میں مسجد پر حملہ، کندوز میں بینک پر حملہ، شہید خلیل حاجی پر حملہ، کرمان حملہ وغیرہ) بلوچستان سے منظم کیے گئے تھے، اور ان حملوں کے مرتکب افراد نے بلوچستان کے مراکز میں تربیت حاصل کی تھی۔
پاکستانی خفیہ ایجنسیاں، جو ماضی میں کشمیر اور خطے کے دیگر ممالک میں پراکسی گروہوں کے ساتھ کام کرنے کا وسیع تجربہ رکھتی ہیں، اب داعش خراسان کو ایک ایسے آلے کے طور پر دیکھ رہی ہیں، جسے وہ افغانستان میں اپنے اسٹریٹجک مفادات کے لیے استعمال کر سکتی ہیں۔
اس فتنہ پرور گروہ کی سرگرمیاں نہ صرف افغانستان میں عدم استحکام پیدا کر رہی ہیں بلکہ یہ اس وقت امارت اسلامی پر دباؤ ڈالنے کے لیے پاکستان کا ایک مؤثر ہتھیار بھی بن چکی ہیں۔
اگر واشنگٹن واقعی داعش کے خلاف جنگ میں سنجیدہ ہے، تو اسے سمجھ لینا چاہیے کہ داعش خراسان کی شاخ کو مکمل طور پر ختم کرنے کے لیے صرف چند افراد کی گرفتاری کافی نہیں، بلکہ اس گروہ کے محفوظ ٹھکانوں کو نشانہ بنانا ضروری ہے۔ محض ان افراد کو پکڑ لینا، جو ایک بڑی نیٹ ورک کی چھوٹی کڑیاں اور مہرے ہیں، کوئی مستقل حل نہیں۔
پاکستان، جو اس وقت سیاسی اور اقتصادی بحرانوں سے دوچار ہے، ہمیشہ ایسے مواقع کی تلاش میں رہتا ہے جن سے وہ امریکا کی خوشنودی حاصل کر سکے۔ ماضی میں بھی پاکستان نے امریکا کو بعض افراد حوالے کیے تاکہ اپنی ساکھ کو بہتر بنا سکے، لیکن دہشت گردی کے بنیادی ڈھانچے کو ختم کرنے کے بجائے، اس نے داعش جیسے گروہوں کو اپنے اسٹریٹجک مقاصد کے لیے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔
پاکستان آج بھی اپنی پرانی چالیں دہرا رہا ہے۔ محمد شریف اللہ کی گرفتاری بھی اسی پالیسی کا ایک تسلسل ہے— پہلے ایسے افراد کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرنا اور پھر جب سفارتی مفادات کا تقاضا ہو، تو انہیں امریکا کے حوالے کر کے اسے ایک بڑی کامیابی کے طور پر پیش کرنا۔
داعش جیسے گروہوں کے خلاف حقیقی جنگ تبھی ممکن ہے جب ان کے اصل سہولت کار، مالی مددگار اور محفوظ ٹھکانے نشانہ بنائے جائیں۔ اگر امریکا زمینی حقائق کو نظر انداز کرتا رہا، تو یہ جنگ کبھی ختم نہیں ہوگی، اور پاکستان اپنی روایتی حکمت عملی کے تحت یہ کھیل مزید آگے بڑھاتا رہے گا۔