بلوچستان میں جعفر ایکسپریس پر حملہ ایک بار پھر دنیا کو یہ دکھا گیا کہ یہ خطہ پاکستان کی غلط پالیسیوں کا شکار ہے۔ یہ حملہ نہ صرف پاکستانی سیکیورٹی اداروں کی کمزوری کی ایک واضح مثال ہے بلکہ یہ بلوچ مزاحمت کا ایسا پیغام ہے جسے کوئی بھی سرکاری پروپیگنڈہ چھپا نہیں سکتا۔ یہ واقعہ ان سب کے لیے درسِ عبرت ہونا چاہیے جو اب بھی بلوچستان کی صورتحال پر آنکھیں بند کیے بیٹھے ہیں۔
بلوچستان طویل عرصے سے ریاستی سطح پر اقتصادی، سیاسی اور سماجی محرومیوں کا شکار رہا ہے۔ اس خطے میں پائی جانے والی بداعتمادی اور ناراضگی کی چند اہم وجوہات درج ذیل ہیں:
۱۔ اقتصادی استحصال:
بلوچستان پاکستان کا سب سے زیادہ وسائل سے مالا مال صوبہ ہے، لیکن اس کے قدرتی ذخائر کا فائدہ صرف مرکزی حکومت اور دیگر صوبے اٹھا رہے ہیں، جبکہ مقامی آبادی بنیادی سہولیات سے بھی محروم ہے۔
۲۔ جبری گمشدگیاں:
بلوچ کارکنوں، طلبہ اور عام شہریوں کی جبری گمشدگیاں مسلسل جاری ہیں، جس پر عالمی تنظیمیں بھی تشویش کا اظہار کر چکی ہیں۔
۳۔ فوجی آپریشنز:
بلوچ عوام کے خلاف پاکستانی فوج کے مسلسل آپریشنز، عام شہریوں کی ہلاکتیں اور بے رحم بمباری نے خطے کے لوگوں کو ہتھیار اٹھانے پر مجبور کر دیا ہے۔
۴۔ سیاسی حل کی عدم موجودگی:
حکومت نے بلوچ رہنماؤں سے مذاکرات کرنے کے بجائے ہمیشہ طاقت و قوت کا راستہ اپنایا ہے، جس کے نتیجے میں یہ مسئلہ مزید پیچیدہ اور سنگین ہو گیا ہے۔ طاقت کے استعمال نے عوام میں مزید بداعتمادی اور ناراضی کو جنم دیا ہے، جبکہ ایک سیاسی حل اب بھی ناپید ہے۔
پاکستانی سیکیورٹی اداروں کی ناکامی!
پاکستانی سیکیورٹی ادارے خود کو دنیا کی طاقتور ترین انٹیلی جنس ایجنسیوں میں شمار کرتے ہیں، لیکن پھر بھی ایسے حملے بار بار کیوں ہوتے ہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ ان کا اصل فوکس اور توجہ قومی سلامتی کے بجائے داخلی سیاست، اقتدار کی رسہ کشی اور مخالفین کو دبانے پر ہے۔
پاکستان کی تاریخ میں انٹیلی جنس ناکامیوں کی کئی مثالیں موجود ہیں:
• 1971 ء میں انہی اداروں کی موجودگی میں بنگلہ دیش علیحدہ ہوا۔
• کارگل جنگ میں ناکام حکمت عملی کے باعث پاکستان کو اسٹریٹجک شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
• جی ایچ کیو، جناح ایئرپورٹ اور مہران بیس پر حملے بھی انٹیلی جنس کی ناکامی کے واضح ثبوت ہیں۔
ہر بار جب ایسا کوئی حملہ ہوتا ہے، پاکستانی حکام اس کا الزام کسی ’’بیرونی ہاتھ‘‘ پر ڈال دیتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر کوئی بیرونی طاقت واقعی اتنی سرگرم ہے، تو اس کے سدباب کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے؟
پاکستان کو اپنی پالیسیاں بدلنی ہوں گی!
اس بار بھی پاکستان کے سرکاری میڈیا نے حملے کو ہمسایہ ممالک سے جوڑنے کی کوشش کی، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ داخلی مزاحمت ہے، جو ریاست کی غلط پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ حکومت کو الزامات لگانے کے بجائے بحران کے حل کے لیے اقدامات کرنے ہوں گے۔
جعفر ایکسپریس پر حملہ ایک واضح پیغام ہے: اگر پاکستان نے بلوچستان کے عوام کے جائز مطالبات کو تسلیم نہ کیا، تو حالات مزید بگڑیں گے۔ ریاست کو اپنی پالیسیوں میں فوری اور مثبت تبدیلی لانی ہوگی۔
بلوچستان کے مسائل کا حل کیا ہے؟
اگر حکومت واقعی بلوچستان میں امن چاہتی ہے، تو اسے درج ذیل اقدامات کرنے ہوں گے:
۱۔ بلوچستان میں فوجی آپریشنز کو فوری طور پر بند کیا جائے۔
۲۔ جبری گمشدگیوں اور غیرقانونی قتل و غارت گری کو روکا جائے۔
۳۔ بلوچ قیادت کے ساتھ سنجیدہ امن مذاکرات کا آغاز کیا جائے۔
۴۔ بلوچستان کو مساوی اقتصادی، سیاسی اور سماجی حقوق دیے جائیں۔
۵۔ انسانی حقوق کا احترام عالمی قوانین کے مطابق یقینی بنایا جائے۔
جعفر ایکسپریس پر حملہ شاید محض ایک آغاز ہو، اور اگر حکومت نے اب بھی حقیقت کو تسلیم نہ کیا تو ایسے مزید واقعات دیکھنے کو مل سکتے ہیں۔ یہ وقت الزامات لگانے کا نہیں بلکہ اصلاحات کرنے کا ہے۔ اگر پاکستان نے تاریخ سے سبق نہ سیکھا تو یہ ناکامی اس کے مستقبل کے لیے بڑے خطرات کی بنیاد بن سکتی ہے۔
پاکستانی ریاست ہمیشہ اپنی ناکامیوں کا الزام دوسروں پر ڈالتی رہی ہے، لیکن بلوچستان کا بحران دراصل اس کی اپنی غلط پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ اگر حکومت واقعی استحکام چاہتی ہے، تو اسے عسکری حل کے بجائے سیاسی، اقتصادی اور سماجی انصاف کو ترجیح دینی ہوگی۔ ورنہ تاریخ ہمیشہ یہ سوال دھراتی رہے گی کہ ’’یہ ناکامی کس کی تھی؟‘‘