حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فتح الباری شرح صحیح البخاری میں تحریر فرماتے ہیں:
قوله: (وکان إبن عمر يراهم شرار خلق الله الخ…)
"وصله الطبري في مسند علي من تهذيب الآثار من طريق بكير بن عبد الله بن الأشج أنه سأل نافعا كيف كان رأي بن عمر في الحرورية.؟
قال: كان يراهم شرار خلق الله انطلقوا إلى آيات الكفار فجعلوها في المؤمنين.
قلت: وسنده صحيح”
(فتح الباري بشرح صحيح البخاري ۲۸۶/۱۲)حافظ ابن حجر عسقلانی رحمتہ اللہ علیہ نے فتح الباری شرح صحیح البخاری میں لکھا ہے کہ بُکَیر بن عبد اللہ بن الأشج نے حضرت نافع سے پوچھا کہ فرقه حروريه کے بارے میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا کیا نظریہ تھا؟
حضرت نافع نے جواب میں فرمایا کہ: حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اس حروریہ فرقے کو اللہ کی مخلوقات میں سب سے بدترین مخلوق قرار دیتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ یہ گروہ کفار کے بارے میں نازل ہونے والی آیات کو مسلمانوں پر چسپاں کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ آیات مؤمنوں کے بارے میں نازل ہوئی ہیں۔
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمتہ اللہ علیہ آخر میں فرماتے ہیں: میں کہتا ہوں کہ اس حدیث کی سند صحیح ہے۔
یہی انحراف خوارج کی جہالت اور گمراہی ہے۔ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمتہ اللہ علیہ خوارج کی کم عقلی کے بارے میں فرماتے ہیں کہ:
"إلا أنهم کانوا يتأولون القرآن علی غير المراد منه، ويستبدون برأيهم….”(فتح الباري بشرح صحيح البخاري ۲۸۳/۱۲)
یہ لوگ اللہ کے کلام کے حقیقی معانی اور اصل مراد کو ترک کرتے ہیں اور اس کی جگہ اپنی خواہشات اور نفسانی میلان کے مطابق اس کی تاویل کرتے ہیں، اس کے بعد جو کچھ ان کی نفسانی خواہشوں کے مطابق ہوتا ہے، اسی کو ترجیح دیتے ہیں۔ ان کی بڑی جہالت اور غلط فہمی کی ایک وجہ ان کی زبان درازی ہے، کہ وہ مسلمانوں کی تکیفر کرتے ہیں اور مسلمانوں کے خون بہانے کو جائز اور مباح سمجھتے ہیں۔
دوسری جگہ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’أن الخوارج لما حكموا بكفر من خالفهم استباحوا دمائهم، وتركوا أهل الذمة، فقالوا نفي لهم بعدهم، وتركوا قتال المشركين واشتغلوا بقتال المسلمين، وهذا كله من آثار عبادة الجهال الذين لم تنشرح صدورهم بنور العلم ولم يتمسكوا بحبل وثيق من العلم، وكفى أن رأسهم ردا على رسول الله صلى الله عليه و سلم وأمره، ونسبه إلى الجور.‘‘ (فيض الباري بشرح صحيح البخاري ۳۰۱/۱۲)
یہ اس لیے کہ جب خوارج نے فیصلہ کیا کہ جو ان کی مخالفت کرے وہ کافر ہے، تو انہوں نے ان کے خون کو حلال قرار دے دیا، مگر اہلِ ذمہ (غیر مسلموں) کو چھوڑ دیا۔ انہوں نے کہا: ہم ان کے ساتھ کیے گئے معاہدے پورے کریں گے۔ یہ لوگ مشرکوں کے خلاف جہاد کرنے کے بجائے مسلمانوں کے ساتھ جنگ میں مشغول ہو گئے۔ یہ سب ان جاہلوں کی عبادت کے اثرات ہیں جو علم کی رسی کو مضبوطی سے نہیں تھامتے۔ ان کی جہالت اور گمراہی کے لیے یہی کافی ہے کہ ان کے سردار اور رہنما نے نبی کریم ﷺ کے فیصلے اور حکم کو رد کیا اور گستاخی کرتے ہوئے ان پر اعتراض کیا۔
یہ سب کچھ اس وجہ سے ہوتا ہے کہ آدمی علماء سے دوری اختیار کر لیتا ہے، ان کی مجالس میں شرکت نہیں کرتا، نہ ہی ان کے ساتھ صحبت اختیار کرتا ہے، بلکہ ان سے بغض و عناد رکھتا ہے، ان کے اقوال کی غلط تعبیر کرتا ہے، غلط فہمی اور غلط استنباط کرتا ہے، اور آخر میں ایسا وحشی بن جاتا ہے کہ انہی جید علماء اور مومنین کے خلاف دشمنی اختیار کر لیتا ہے۔
پھر یہ شیطانی جال میں ایسا پھنس جاتا ہے کہ کبھی کسی اور کبھی کسی کے ہاتھوں کا آلۂ کار بن جاتا ہے، اور جس جگہ ان کے آقا چاہیں، وہیں استعمال ہوتا ہے۔
ایک مشہور کہاوت ہے: ’’ نہ دین کا رہا، نہ دنیا کا‘‘۔
آج کے دور میں داعشی خوارج کا انجام بھی اسی کہاوت کی مانند ہوگا کہ نہ ان کی دنیا بنتی ہے اور نہ ہی آخرت۔ بلکہ یہ مزید گناہوں میں مبتلا ہوتے جارہے ہیں اور امتِ مسلمہ کے علمائے حق کی شہادت کا بوجھ اپنے سر لے رہے ہیں۔