چند متعصب مؤرخین کا یہ خیال ہے کہ ینی چری لشکر عیسائیوں کی ان اولادوں پر مشتمل تھا، جنہیں زبردستی ان کے والدین سے جدا کیا جاتا تھا اور مسلمان بنایا جاتا تھا؛ ان کے مطابق اس کے لیے ایک باقاعدہ قانون موجود تھا، جسے وہ ’’فشری نظام‘‘ کہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس نظام کے تحت عیسائی بچوں پر جزیہ لیا جاتا تھا، جسے وہ ’’بچوں کا جزیہ‘‘ کا نام دیتے تھے۔
ان کے خیال میں اس قانون کے تحت مسلمانوں کو شہروں اور عیسائی علاقوں سے مالِ غنیمت کے پانچویں حصے کے بدلے میں پانچ بچے زبردستی مسلمان کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔ وہ متعصب مؤرخین جنہوں نے حقیقت کو مسخ کرنے کی کوشش کی ہے، ان میں کارل بروکلمان، گیبونز، اور جب شامل ہیں۔
لیکن حقیقت ایسی نہیں تھی، بلکہ اصل اور درست بات یہ ہے کہ ان کے نظام میں مسلمانوں سے ٹیکس لیا جاتا تھا۔ یہ محض ایک جھوٹی کہانی ہے، جسے زبردستی اورخان اور مراد خان کی تاریخ میں شامل کیا گیا، اور اب اسے پورے عثمانی دور سے منسوب کیا جاتا ہے تاکہ ان پر الزام لگایا جا سکے۔
وہ بچے جو مسلسل جنگوں کی وجہ سے یتیم ہو جاتے تھے اور جن کا کوئی پرسانِ حال نہ ہوتا تھا، عثمانی حکومت ان بچوں کی کفالت کرتی تھی اور ان کی دیکھ بھال کے لیے ایک منظم قانون بنایا گیا تھا۔ عثمانی ریاست کا دین اسلام تھا، اور اسلام کسی بھی صورت میں بچوں سے جزیہ لینے کی اجازت نہیں دیتا۔ درحقیقت یہ متعصب عیسائی مؤرخین کی طرف سے عثمانیوں پر لگایا گیا ایک بہتان ہے۔
جنگوں کے باعث بہت سے بچے اپنے والدین سے بچھڑ جاتے تھے۔ عثمانی حکمران اور مسلمان رعایا ایسے بچوں کو، جو اپنے والدین سے جدا ہو چکے ہوتے اور مفتوحہ علاقوں کی گلیوں میں آوارہ پھرتے تھے، جمع کرتے اور ان کی کفالت کرتے تھے۔ انہیں روشن مستقبل کی ضمانت دی جاتی تھی۔ کیا اسلام کے علاوہ کسی اور دین میں کسی کے روشن مستقبل کی ایسی ضمانت موجود ہے؟
افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ان جھوٹے الزامات کی تردید کے بجائے، بعض مسلمان مؤرخین خود اپنے اسکولوں اور یونیورسٹیوں میں یہی باتیں پڑھاتے ہیں اور اس انداز میں سکھاتے ہیں گویا یہ سب سچ ہو۔ یہ لوگ بار بار انہی داستانوں کو اپنی کتابوں میں دہراتے ہیں۔
ان مؤرخین میں ایڈووکیٹ مؤرخ فرید بیگ، جنہوں نے اپنی تصنیف ’’الدول العلية العثمانية‘‘ میں، ڈاکٹر علی حسون نے اپنی کتاب ’’تاريخ الدولة العثمانية‘‘ میں، مؤرخ محمد کرد علی نے اپنی تصنیف ’’خطط الشام‘‘ میں، ڈاکٹر عمر عبدالعزیز نے اپنی کتاب ’’محاضرات في تاريخ الشعوب الاسلامية‘‘ میں، اور ڈاکٹر عبدالکریم غربیہ نے اپنی تصنیف ’’العرب والأتراك‘‘ میں بار بار ان الزامات کو دہرایا اور بہتان تراشی کی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ تمام قصے، الزامات، جھوٹ اور من گھڑت کہانیاں ہیں، جن کا کسی بھی اسلامی ماخذ میں کوئی ثبوت نہیں ملتا؛ بلکہ یہ مشرکین کی تحریروں پر مبنی ہیں کہ مسلمان بچوں پر جزیہ عائد کرتے تھے اور یہ قانون تھا کہ مفتوحہ علاقوں اور شہروں میں غیر مسلم والدین سے ان کے بچے زبردستی لیے جاتے تھے۔ ان متعصب مؤرخین میں نصرانی مؤرخ سوموفیل اور بروکلمان کے نام خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
یہ وہ لوگ ہیں جو دانستہ طور پر اسلامی تاریخ کو مسخ کرتے ہیں، اور اس طرح آنے والی مسلمان نسل کو اپنے روشن ماضی اور تاریخ سے بے خبر رکھتے ہیں۔ جن بچوں کو مخصوص جہادی تربیت دی جاتی تھی، وہ عیسائی نہیں تھے؛ بلکہ وہ اُن مسلمانوں کے بچے تھے جو نو مسلم تھے، اور عیسائیت ترک کر کے اسلام قبول کر چکے تھے۔ یہ بچے اسلام کو اپنی زندگی کا واحد مقصد اور خوشی سمجھتے تھے۔ ان کے والدین خود اپنی رضا مندی سے اپنے بچوں کو وقت کے حاکم کے پاس بھیجتے تاکہ ان کی اسلامی اصولوں کے مطابق تعلیم و تربیت ہو۔
رہے دیگر بچے؛ تو ان کا تعلق اُن بچوں سے تھا جو جنگوں میں یتیم ہو گئے تھے۔ عثمانی حکومت اُنہیں گود لیتی اور اسلامی اصولوں کی بنیاد پر ان کی پرورش کرتی۔ یہ بچے اپنے قیام گاہوں میں رہتے تھے۔
اورخان نے جو لشکر تشکیل دیا تھا، وہ ایک باقاعدہ لشکر تھا جو ہر حالت میں جنگ کے لیے تیار رہتا اور اپنے مراکز میں قیام کرتا۔
روم کے حکمران اور ان کے لشکر، جن کے دل اسلام کے نور سے منور ہو چکے تھے، ان کی فوج میں شاہی خاندان کے افراد کے علاوہ ایک ایسی جماعتِ مجاہدین بھی تھی جو ہر وقت جہاد کی پکار پر لبیک کہنے کے لیے تیار رہتی تھی۔