اکیسویں صدی کی پہلی دو دہائیوں کے اہم اور پیچیدہ واقعات کے تسلسل میں، سن 2015ء وہ سال تھا جب ایشیا کے ایک اہم اور اسٹریٹجک خطے افغانستان کو داعش کے نام سے ایک مبہم اور درآمد شدہ عنصر کے ظہور کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ ایک ایسی پُراسرار تحریک تھی جس کا آغاز ہی افغان عوام کے ساتھ کوئی عقیدوی، فکری یا نسلی تعلق نہیں تھا۔ اس کے رہنما افغان معاشرے سے باہر کے وہ افراد تھے، جو اپنے لوگوں کی طرف سے رد کیے گئے، انتہاپسند اور خارجی فکر رکھنے والے لوگ تھے۔
اگرچہ خراسان شاخ کی پہلی نسل کے داعشی افراد کی تعداد کم اور محدود تھی، لیکن بعد کے مراحل اور مختلف حکمتِ عملیوں کے ذریعے اس نے اپنی صفیں وسیع کیں اور افراد کی تعداد میں اضافہ کیا۔ داعش کی صفوں میں بھرتی کی تدابیر، چالاکیاں اور طریقہ کار، ان کی بقاء اور تسلسل کا راز تھا، جس کی مدد سے آج تک ان کی داعشی مشینری چل رہی ہے۔
اس تجزیے میں اس گروہ کی بھرتی کے مختلف پہلوؤں، دھوکہ دہی پر مبنی حکمتِ عملیوں، غلط فہمیوں اور ان عوامل کا جائزہ لیا جائے گا جن کی بنا پر بڑی تعداد میں نوجوان اس قاتل گروہ کی صفوں میں شامل ہو کر گمراہ ہو جاتے ہیں۔
داعش خراسان شاخ کے ابتدائی دنوں میں ان کا افرادی ڈھانچہ دو حصوں پر مشتمل تھا۔ پہلا حصہ افغانستان، پشتونخوا اور وزیرستان کے ان باغی افراد پر مشتمل تھا جنہیں معاشرے اور جہادی صفوں سے نکالا گیا تھا، اور جو انتہاپسند سوچ اور داغ دار ماضی کے حامل تھے۔ داعش نے ان افراد کو اپنے مقاصد کے لیے ایک موزوں متبادل پاکر اپنی صفوں میں شامل کرلیا، اور خراسان شاخ کے قیام میں انہوں نے اہم کردار ادا کیا۔
یہی افراد داعش خراسان شاخ کی پہلی نسل تھے، جنہوں نے افغانستان اور پاکستان کے درمیان سرحدی علاقوں میں اس بدنما اور خطرناک تنظیم کو وجود بخشا۔
دوسرا گروہ، جو خراسان شاخ کی سرگرمیوں کے ایندھن کے طور پر استعمال ہوا، پہلے گروہ سے کہیں وسیع تر اور مختلف قسموں پر مشتمل تھا۔ اس میں وزیرستان اور خیبر پختونخوا میں پہلے سے موجود وہ غیر ملکی انتہاپسند مہاجر شامل تھے جو دنیا کے دیگر حصوں سے آئے تھے۔ یہ افراد انتہاپسند اور خارجی نظریات کے حامل اور مختلف ذہنی و نفسیاتی عقدوں میں مبتلا نوجوان تھے۔ ان میں وہ لوگ بھی شامل تھے جو پہلے سے مختلف جرائم میں ملوث تھے اور جن پر اپنے علاقوں کی سرزمین تنگ ہو چکی تھی، اور اب وہ مفت میں عورتوں سے نکاح، مراعات اور چمک دمک کی تلاش میں تھے۔
ان بدقسمت اور مجرمانہ ذہنیت رکھنے والے طبقات کی موجودگی اور ان کے لیے انتہاپسند خارجی فکر سے دیا گیا مذہبی جواز اس بات کا سبب بنا کہ داعش کے زیر اثر علاقوں میں عام مسلمانوں کے گھروں، املاک اور عزتوں کو غنیمت کے نام پر لوٹا گیا۔
اس کے علاوہ، کچھ نوجوان ایسے بھی تھے جو داعش کی مکروہ حقیقت سے ناواقف تھے اور اس دھوکے میں آ گئے تھے کہ شاید داعش واقعی امت مسلمہ کے دفاع اور کسی مقدس مشن کے لیے سرگرم ہے۔ یہی سوچ انہیں داعش خراسان شاخ سے جوڑنے کا سبب بنی، اور وہ افغانستان، پاکستان اور دیگر ممالک سے آ کر اس میں شامل ہوئے۔
خراسان شاخ کے قیام اور ابتدائی جنگجوؤں کی تنظیم کے علاوہ اس گروہ نے بھرتی کے لیے دیگر حربے بھی اپنائے، جن میں سے بعض کو وہ آج بھی مہارت سے استعمال کر رہے ہیں۔ ملک کے مشرقی علاقوں اور دیگر حصوں میں داعش نے غیرفطری اور ناقابل معافی سنگین جرائم کا ارتکاب کیا، جو یہاں موجود قابض قوتوں کی موجودگی کے سائے تلے انجام دیے گئے۔ ان مظالم کے نتیجے میں معاشرے میں ان کے خلاف نفرت اپنی انتہا کو پہنچ گئی، اور افغانی معاشرے میں رضاکارانہ طور پر ان کے ساتھ شامل ہونے کی شرح تقریباً صفر پر آ گئی۔
داعش کے بھرتی، دعوت اور تبلیغ کے شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے مشترکہ اور چالاک حکمتِ عملیوں کے ذریعے اپنی صفوں میں نئے افراد کو شامل کرنے کی کوششیں تیز کر دیں۔ عملی طور پر، انہوں نے اپنے افراد کو تربیتی، تعلیمی اداروں، مدارس اور یونیورسٹیوں میں خفیہ طور پر تعینات کیا۔ ان افراد کی مدد سے، چالاکی اور فریب کے ذریعے، توحید، اسلامی نظام کی طلب اور امت کے مظلوم ہونے جیسے خوبصورت عنوانات استعمال کر کے نوجوانوں کے ذہنوں کو متاثر کیا، خارجی انتہاپسند فکر کو پھیلایا، اور اپنی صفوں کو مضبوط بنانے کی کوشش کی۔
اس عمل کے دوران انہوں نے داعشیت کی ایک نئی نسل کو بھی اپنی طرف مائل کیا۔ لیکن ان کے عمل اور نظریے کے درمیان پائے جانے والے گہرے تضادات، مسلمانوں کے خلاف ان کے بھیانک جرائم، تعلیمی اور تربیتی اداروں سے ان کے افراد اور تبلیغی گروہوں کے خاتمے نے ان کی بھرتی کی مہم کو شدید دھچکا پہنچایا، اور اس کا اثر و رسوخ اور حیثیت بڑی حد تک ختم ہو گئی۔
اس کے علاوہ، داعش خراسان شاخ کے لیے غیر ملکی بھرتی اور غیر ملکی جنگجوؤں کی موجودگی ایک ایسی حکمتِ عملی ہے جس پر انہوں نے ابتدا ہی سے خصوصی توجہ دی ہے۔ تاہم، مذکورہ بالا حکمتِ عملیوں کی ناکامی اور ان کے اثرات میں کمی کے بعد، اس وقت ان کی سب سے بڑی توجہ بیرونی بھرتیوں پر مرکوز ہے۔ داعش خراسان کے بھرتی اور نفسیاتی جنگ کے ماہرین نہایت چالاکی سے مختلف ذرائع استعمال کرتے ہوئے ان غیر ملکی افراد کو نشانہ بناتے ہیں جو کسی نہ کسی وجہ سے داعش میں شامل ہو سکتے ہیں۔
اس حوالے سے وہ افراد خاص طور پر ان کا ہدف ہوتے ہیں جنہیں ان کے ممالک میں حکومتوں کی جانب سے مذہبی بنیادوں پر دبایا گیا ہو یا ان کی مذہبی آزادی سلب کی گئی ہو، اور وہ بدلے اور بغاوت کی سوچ رکھتے ہوں۔ وسطی ایشیا کے ممالک، جہاں عشروں سے نوآبادیاتی اور آمرانہ حکومتوں نے اسلام دشمن پالیسیوں کو رائج کیا ہے، وہاں اسلام کو منظم طریقے سے زندگی اور حکومت کے نظام سے الگ کر دیا گیا ہے۔ یہاں تک کہ ان ممالک میں مسلمانوں کی نئی نسلوں کے لیے اٹھارہ سال کی عمر سے قبل مذہب قبول کرنے پر پابندی عائد ہے۔
اس کے علاوہ، ان علاقوں کے عوام شدید غربت کا شکار ہیں۔ ان تمام عوامل کے نتیجے میں مسلمان نوجوان نجات اور بہتری کی کسی راہ کی تلاش میں ہوتے ہیں، اور داعش اسی صورتحال سے فائدہ اٹھاتی ہے۔
داعش نہایت ہوشیاری اور چالاکی سے اپنے پروپیگنڈا کے ذریعے ایسے نوجوانوں کے سامنے خود کو مسلمانوں کا ایک مضبوط محافظ ظاہر کرتی ہے۔ جعلی طاقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ تاثر دیاجاتا ہے کہ وہ مظلوم مسلمانوں کی عزت اور عظمت کو بحال کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ وہ نوجوانوں کو یہ احساس دلاتی ہے کہ گویا داعش کے ساتھ شامل ہونا ان کی آزادی، طاقت اور خودمختاری حاصل کرنے کا ایک آسان اور مؤثر ذریعہ ہے۔
اس کے بعد، وہ ایسے نوجوانوں کی نشاندہی کرتے ہیں جو سوشل میڈیا یا دیگر ذرائع سے متاثر ہو چکے ہوں، اور پھر ان سے رابطہ قائم کرتے ہیں۔ جب انہیں اس بات کا یقین ہو جائے کہ کوئی فرد ذہنی طور پر ان کے نظریات سے متاثر ہو چکا ہے، تو وہ اسے اپنی سرگرمیوں کے مراکز میں بلاتے ہیں۔ وہاں کچھ عرصے تک مزید فکری تربیت اور ذہن سازی کرتے ہیں۔ اسلامی اصطلاحات اور اچھے دینی مفاہیم کو استعمال کر کے ایسے نوجوانوں کو ذہنی اور فکری غلامی میں جکڑ لیتے ہیں۔
یہاں تک کہ ان کی سوچ سے اچھے اور برے، دوست اور دشمن کا فرق ختم کر دیتے ہیں، اور اسے مکمل طور پر ایک اندھا قاتل بنا دیتے ہیں۔ پھر اس سے اپنی وحشیانہ اور ناجائز جنگ میں کام لیتے ہیں، مسلمانوں کا خون بہاتے ہیں، اور کسی جھوٹی اور گمراہ کن تحریک کے تحت اسے ہر طرح کے جرائم پر آمادہ کرتے ہیں۔