گذشتہ اقساط میں ہم نے کچھ گناہوں کا ذکر کیا ہے جو خوارج نے کیے ہیں، یہاں کچھ مزید بڑے اور خطرناک گناہ بیان کیے جا رہے ہیں، جو کہ قرآن اور سنت کے خلاف ہیں اور جو امت مسلمہ کے لیے شدید نقصانات کا باعث بنتے ہیں۔
۵- مسلمان حکام کے خلاف خروج (حاکم کے خلاف بغاوت):
اہلِ حل و عقد کی جانب سے نامزد کردہ متفقہ حاکم کے خلاف بغاوت قرآن اور احادیث کی رو سے حرام ہے، اللہ تعالیٰ قرآن عظیم الشان میں فرماتے ہیں: ’’يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ‘‘ (النساء: ۵۹)۔
ترجمہ: اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو، رسول (صلى الله عليه وسلم) کی اطاعت کرو، اور اپنے حکام کی اطاعت کرو۔
یہ آیت واضح طور پر حکم دیتی ہے کہ مروجہ حاکم کی اطاعت فرض ہے، جب تک کہ وہ واضح کفر نہ کرے، نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے ایک حدیث میں فرمایا: ’’من خرج عن الطاعة، وفارق الجماعة فمات، مات ميتة جاهلية.‘‘ (صحیح مسلم)
ترجمہ: جس نے اطاعت سے سرکشی کی اور مسلمانوں کی جماعت سے الگ ہوگیا، اس حالت میں وہ مر گیا، تو وہ جاهلیت کی موت مرا۔
لیکن خوارج آیات اور احادیث کے خلاف مروجہ حاکم کے خلاف خروج کرتے ہیں اور اسلامی نظام کے خلاف ہمیشہ بغاوت کرتے ہیں، جیسا کہ احادیث میں ذکر ہے، خوارج ہمیشہ کفار کے مقابلے میں اپنی بندوق مسلمانوں پر اٹھاتے ہیں۔
۶- مساجد اور عبادت گاہوں کو منہدم اور ویران کرنا:
یہ بھی بڑے گناہوں میں شامل ہے جس پر اسلام میں پابندی عائد کی گئی ہے، اور جو بھی مسجدوں کو ویران کرتا ہے، وہ روئے زمین پر موجود سب سے بڑا ظالم ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ مَنَعَ مَسَاجِدَ اللَّهِ أَنْ يُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ وَسَعَىٰ فِي خَرَابِهَا… (البقرة: ۱۱۴)
ترجمہ: اور اس شخص سے زیادہ ظالم کون ہے، جو اللہ کی مساجد کو روک دے کہ ان میں اللہ کا نام لیا جائے، اور ان کی ویرانی کی کوشش کرے۔
اسی طرح احادیث میں مذکور ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مساجد کی عزت و احترام کرتے تھے، اور اگر مسجد میں بچے یا پاگل بھی ہوتے تو مسجد کے احترام کی وجہ سے انہیں باہر نہیں نکالتے۔
لیکن خوارج نے ہمیشہ سے مسجدوں، زیارتوں اور مدارس کو اپنے حملوں کا ہدف بنایا ہے، آج کل داعش، جو کہ خوارج کی جدید نمائندگی ہے، عراق، شام اور افغانستان میں بہت سے مسجدوں، مدارس اور زیارتوں کو ویران کر چکی ہے، کیونکہ ان کے پاس تکفیری فکر ہے اور وہ دوسرے مسلمانوں کو کافر کہتے ہیں۔
۷- انتحار (خودکشی)
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: وَلَاتَقْتُلُواأَنفُسَكُمْ (النساء: ۲۹)
ترجمہ: اپنے آپ کو قتل مت کرو۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: من قتل نفسه بشيء، عُذِّب به يوم القيامة. (بخاری و مسلم)
ترجمہ: جو شخص اپنے آپ کو کسی چیز سے قتل کرے گا، قیامت کے دن اسی چیز سے عذاب دیا جائے گا۔
ان ہی قرآنی اور نبوی ہدایات کے خلاف، خوارج خودکش حملوں کے حوالے سے مشہور ہیں، وہ اپنے آپ کو دھماکے سے اڑاتے ہیں، مسلمانوں کو مارتے ہیں، اور یہ عمل اپنے لیے عبادت سمجھتے ہیں، حالانکہ یہ اسلام میں حرام ہے اور دوزخ کا سبب بنتا ہے، یہ خودکشی ہے اور شرعاً ممنوع عمل ہے۔