داعش پر انٹیلیجنس اور فکری سرمایہ کاری کے سلسلے میں ایک بڑی مالی رقم اس بات پر خرچ کی گئی ہے کہ کس طرح میڈیا اور صحافت کے ذریعے داعشیوں کے مظالم کو اُجاگر کر سکیں۔ یہ تشہیر مثبت اور منفی دونوں پہلوؤں کے ساتھ سامنے آتی ہے۔
مثبت پہلو کے طور پر کوشش کی گئی ہے کہ داعش کو ایک اسلامی تنظیم کے طور پر متعارف کروایا جائے، انہیں دین اسلام کے خادم قرار دیا جاتا ہے، تاکہ خلافت، خلیفہ، اور موجودہ جغرافیائی و سرحدی حدود کو مٹانے جیسے کچھ اسلامی نعروں اور اصطلاحات کے ذریعے عام مسلمانوں کو یہ باور کروایا جا سکے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ اپنے دین اور اسلامی اقدار کے تحفظ کے لیے اس تنظیم کے گرد جمع ہو جائیں۔
یہ لوگ قرآن و حدیث کی بابرکت آیات و اقوال کو تحریف (توڑ مروڑ) کرکے استعمال کرتے ہیں، اور صرف وہ حصے پیش کرتے ہیں جو ان کی بقا اور مفادات کے لیے موزوں ہوں۔ بدقسمتی سے کچھ سادہ لوح اور کم تعلیم یافتہ مسلمان ان پروپیگنڈوں سے متاثر ہوگئے اور اس تنظیم پر اعتبار کرنے لگے، لیکن جب انہوں نے ان کے برے اعمال اور ظالمانہ کاروائیاں دیکھیں تو اس ڈراؤنے خواب سے بیدار ہو گئے مگر تب تک بہت دیر ہو چکی تھی، کیونکہ داعشیوں نے اپنی وحشی فطرت کے مطابق ان ہی لوگوں کو جو کبھی ان کے ساتھ تھے، بہت ہی بُرے طریقے سے ختم کر دیا۔
داعش کی تمام نشریات اور اشاعتیں انتہا پسندی، تشدد، اور تعصب سے بھرپور ہوتی ہیں، جن میں دھمکی آمیز زبان استعمال کی جاتی ہے۔ اکثر اوقات یہ مواد اصل زبان میں نہیں بلکہ ترجمہ شدہ محسوس ہوتا ہے، کیونکہ ان کے مالی معاونین نے یہ مواد اپنی زبان میں فراہم کیا ہوتا ہے، اور داعشی اسے اپنے فائدے کے لیے ترجمہ کر کے مخصوص انداز میں پیش کرتے ہیں۔
یہاں ہم تھوڑا سا داعش کی تنظیم میں لوگوں کی بھرتی اور شمولیت کے طریقۂ کار پر بھی بات کریں گے۔ بدقسمتی سے، انہوں نے عوام کی موجودہ حالت، مجبوریوں اور معاشی کمزوریوں سے بھرپور فائدہ اٹھایا ہے۔ انہوں نے جو لوگ بھرتی کیے، ان سے بڑے معاوضوں، مالی سہولیات اور خصوصی امتیازات کے وعدے کیے — لیکن یہ سب صرف شروعات کے چند مہینوں تک محدود ہوتا ہے۔ بعد ازاں، انہی افراد کو محض ایک آلہ سمجھ کر استعمال کیا جاتا ہے اور آخرکار انہیں تباہی کے گڑھے میں دھکیل دیا جاتا ہے۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ لوگ اپنی تنخواہیں بھی مقامی کرنسی کے بجائے ڈالر یا یورو میں ظاہر کرتے ہیں، اور اکثر ۵۰۰ سے زائد کی رقم بتاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کچھ بے روزگار نوجوان ایران یا دیگر ممالک مزدوری کے لیے جانے کے بجائے، اس پیشکش کو بہتر سمجھتے ہیں۔ مگر یہ ایک تلخ حقیقت کو بے نقاب کرتا ہے اور وہ یہ کہ داعش کے یہ ارکان یا جنگجو نہ کوئی عقیدہ رکھتے ہیں، نہ اسلامی نظریہ اور نہ ہی یہ مقدس جذبوں یا سچے مجاہد ہیں، بلکہ یہ محض دولت کے پجاری ہیں، اور وہ بھی ایک ایسی قوت کے، جس کی اصل اور مالی پشت پناہی آج تک واضح نہیں ہو سکی۔
عام لوگوں کو اپنی تنظیم میں بھرتی کرنے کا دوسرا ذریعہ صرف مالی وعدے نہیں، بلکہ مذہب اور جہاد کے نام پر کیا گیا پروپیگنڈا بھی ہے۔ یہ خود کو جہاد اور اسلامی جدوجہد پر گامزن باور کرواتے ہیں، حالانکہ ان کا یہ گمراہ کن، جھوٹا اور دھوکہ دہی پر مبنی دعویٰ ان کے شیطانی اور وحشیانہ اعمال سے بالکل بے نقاب ہو چکا ہے۔
اکثر ایسا بھی ہوا ہے کہ انہوں نے کسی شخص کو یرغمال بنایا، اور اس کی رہائی کے بدلے اس کے خاندان کے کسی فرد کو بطور کرائے کے جنگجو شامل کرنے کی شرط رکھی اور تب جا کر اس قیدی کو رہا کیا۔