افغانستان کے لیے روس کے خصوصی نمائندے نے ایک بار پھر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ افغانستان میں داعشی خوارج کی شاخ امریکہ اور برطانیہ کی کوششوں سے قائم ہوئی اور اسے ان کی حمایت حاصل ہے۔ ضمیر کابلوف نے یہ بات حال ہی میں RTVI چینل کے ساتھ اپنے انٹرویو میں کہی۔ کابلوف کے بقول:
"داعش خراسان تقریبا دس سال قبل اس وقت ابھری جب امریکہ اور نیٹو کی افغانستان میں بڑی تعداد میں فوج موجود تھی۔ لیکن اپنے منظر عام پر آنے کے ساتھ ہی اس نے سب سے پہلے امریکہ کو نشانہ نہیں بنایا جو کہ حملہ آور تھے بلکہ ان طالبان کو نشانہ بنایا جو ان کی مسلح مزاحمت کر رہے تھے۔”
ضمیر کابلوف نے مزید کہا:
"داعشی اس طرح سے ابھرے جیسے بارش کے بعد کھمبیاں ابھرتی ہیں۔یہ اہم بات ہے۔ جب ہم نے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو یہ بات کی، تو انہوں نے ہر ممکن کوشش کی کہ داعش کے خطرے کو کم کر کے دکھائیں اور دعویٰ کیا کہ افغانستان میں بنیادی خطرہ القاعدہ ہے۔”
کابلوف نے اپنی بات کو ثابت کرنے کے لیے ۲۰۱۸ء کے وسط میں امریکہ اور اس وقت کی کٹھ پتلی حکومت کی جانب سے صوبہ جوزجان کے درزاب اور قوشتیپہ اضلاع میں امارت اسلامیہ کی کاروائیوں سے داعش کو نجات دلانے کی طرف اشارہ کیا:
"جب طالبان نے داعش کے ساتھ جنگ شروع کی، داعشی شدید دباؤ میں آگئے اور بس ختم ہونے کے قریب ہی تھے، کہ عین اس وقت امریکی ہیلی کاپٹر وہاں نمودار ہوئے اور داعشیوں کو میدان جنگ سے اٹھا لے گئے۔ ایسا کئی بار ہو چکا ہے اور ہم ایسے واقعات کو منظر عام پر بھی لائے ہیں۔”
کابلوف نے مزید اضافہ کرتے ہوئے کہا کہ خراسانی خوارج عملا صرف امریکہ کے دشمنوں سے جنگ کر رہے ہیں اور امریکہ انہیں کمزور کرنا نہیں چاہتا:
"(امارت اسلامیہ) داعش کے ساتھ کشمکش میں مشکلات کا سامنا کر رہی ہے، لیکن اہم سوال یہ ہے کہ کیوں؟ کیونکہ فرار ہونے کے بعد امریکہ اور نیٹو کے رکن ممالک نے ان پر پابندیاں عائد کیں، ان کے قومی اثاثے ہتھیائے اور ہر ممکن حد تک دہشت گردی کے خلاف کاروائیاں کرنے میں انہیں کمزور کیا۔ ہمیں اس حوالے سے سوچنا چاہیے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک فریق ہے جسے (امارت اسلامیہ کی جانب سے) خراسانی داعشیوں کو ختم کرنا پسند نہیں۔”