ایران کے رسمی حکومتی میڈیا نے اطلاع دی ہے کہ کرج میں تین افغان شہریوں کو داعشی خوارج کے ساتھ تعلقات کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق ان افراد کو پولیس نے خفیہ اطلاع ملنے پر کرج کے شہر ماہدشت سے گرفتار کیا۔ مقامی پولیس کے ترجمان کے بقول محمد ذاکر رامش نامی ایک گرفتار شدہ شخص خراسانی خوارج کی ایک ٹیم کا لیڈر تھا اور ان کا منصوبہ تھا کہ عید الفطر کے ایام میں حملے کریں۔
رپورٹس کے شائع ہونے کے بعد جبھہ بغاوت کی پریس نے تصدیق کی کہ رامش، اس کے ایک بھائی اور ایک ساتھی کو ایرانی پولیس نے گرفتار کیا ہے۔ محمد ذاکر رامش اور اس کا بھائی خیر محمد خیر خواہ نامی باغیوں کے ایک کمانڈر کے بیٹے ہیں جو دسمبر ۲۰۲۲ء میں امارت اسلامیہ کی سکیورٹی فورسز کے ساتھ ایک جھڑپ میں مارا گیا تھا۔
کابل کی سابقہ کٹھ پتلی حکومت کے نیشنل سکیورٹی ادارے کے اس وقت کے سربراہ احمد ضیاء سراج نے بھی بی بی سی فارسی پر حال ہی میں اس بات کی تصدیق کی ہے کہ رامش سابقہ حکومت کے دور میں کابل میں داعش کے ساتھ تعلقات کے الزام میں گرفتار ہوا، لیکن ایک دو گھنٹوں میں ہی اسے بے گناہ کہہ کر چھوڑ دیا گیا۔
ایسا پہلی بار نہیں ہے کہ باغیوں اور خوارج کے درمیان تعلقات کی رپورٹس نشر ہو رہی ہیں۔ اپریل، مئی ۲۰۲۲ء میں داعشی خوارج نے افغانستان سے تاجکستان اور ازبکستان کی جانب میزائل داغے۔ اسی سال جولائی میں حملے میں ملوث افراد صوبہ قندوز کے ضلع امام صاحب کے علاقے قنجغہ میں سکیورٹی فورسز کی ایک کاروائی میں گرفتار ہو گئے۔ کاروائی میں گرفتار ہونے والے ایک داعشی نے اعتراف کیا کہ ان کے پاس میزائل نہیں تھے، تو جبۂ بغاوت کے لوگوں نے انہیں پنجشیر سے لا کر دیے۔
#مهم:
شب گذشته در منطقهٔ قنجغه ولسوالی امام صاحب قندز قطعات خاص امارت اسلامی یک مرکز خوارج را کشف و از بین بردند.
دراین عملیات سه تن خوارج هلاک وپنج تن زنده دستگیر شدند.
وسایط و وسائل تخریبی آنها تصرف گردید.
اینهاچندی پیش ازبکستان و تاجکستان را آماج حملات راکتی قرار داده بودند. pic.twitter.com/j0Nftb2UYy— Zabihullah (..ذبـــــیح الله م ) (@Zabehulah_M33) July 16, 2022
علاوہ ازیں، داعشی خوار ج کے ایک مبلغ ابو حنظلہ جوانمرد نے کچھ عرصہ قبل ایک صوتی بیان میں جبۂ بغاوت کے لوگوں کو اپنا بھائی قرار دیا اور کہا کہ وہ ہر نماز میں ان کے لیے دعا کرتا ہے۔ ابو حنظلہ کا اصل نام محمد ظریف ہے اور اس کا سسر امارت اسلامیہ کے ہاتھوں ملک کی فتح کے بعد پنجشیر میں باغیوں کے ہمراہ مارا گیا تھا۔