امارت اسلامیہ افغانستان کی کامیاب خارجہ پالیسی کی وجہ سے پاکستان اس نہج پر پہنچ چکا ہے کہ وہ خود کو اور دوسروں کو بہت تکلیف پہنچا رہا ہے۔ جس دن سے افغان حکومت نے پاکستان کے بارے میں مبہم کی بجائے واضح پالیسی اختیار کی اور پورے منطق، استدلال اور مستند طریقے سے پاکستان کے اہداف کی تشخیص کی، اسی دن سے پاکستان کی نگاہیں جھک گئی ہیں۔ پاکستان کی ساکھ اور حیثیت گر رہی ہے۔
اب عالمی سطح پر پاکستان کا نام سنتے ہی لوگوں کے چہروں پر خوف، دہشت، وحشت، دھماکے اور اس طرح کی دیگر مصیبتوں کی پرچھائیاں پڑ جاتی ہیں۔
اب ساری دنیا تقریبا اس بات سے آگاہ ہو چکی ہے کہ پاکستان فتنوں کا گڑھ اور مشکلات پیدا کرنے کا مرکز ہے۔
پاکستان میں خوارج کے خفیہ ٹھکانے اور تربیتی مراکز ہیں۔ اب سب کو یہ سمجھ آ چکی ہے کہ پاکستان دہشت گردی کو اپنی خارجہ پالیسی اور دباؤ کے آلے کے طور پر استعمال کرتا ہے۔
اس حقیقت کے باوجود کہ گزشتہ بیس سالوں میں پاکستان کو نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر عالمی برادی کی جانب سے بہت سے مواقع اور مراعات حاصل ہوئی ہیں، اس نے اپنی چالاکی اور مکاری سے دنیا کی نظروں میں دھول جھونکی ہے۔
پاکستان نہ صرف عالمی بد اعتمادی کا شکار ہے بلکہ عالمی دباؤ کا شکار بھی ہے اور وہ بہت حد تک تنہا ہو چکا ہے اور اگر اس نے اپنی روش نہ بدلی تو امکان ہے کہ بالکل ہی تنہا رہ جائے گا۔ آج کل پاکستان اپنی اس پریشانی میں مبتلا ہے۔
پاکستان اپنی موجودہ صورتحال، عالمی دباؤ اور الگ تھلگ حالت کا ذمہ دار صرف اور صرف امارت اسلامیہ افغانستان کو گردانتا ہے اور اس لیے افغانستان کے خلاف کسی قسم کی کاروائی سے گریز نہیں کرتا۔ چاہے وہ بارود اور اسلحے کے ذریعے ہو، چاہے وہ حملوں اور کاروائیوں کی منصوبہ بندی کرنا ہو، چاہے لوگوں کو اٹھانا ہو چاہے خوارج کو سہولیات، وسائل اور راستے فراہم کرنا ہو۔
پاکستان چاہتا ہے کہ اپنے ان کرتوتوں سے افغان عوام اور افغان حکومت کو یرغمال بنا لے اور انہیں مجبور کر دے کہ وہ بھی پاکستان کو اسی طرح ردّعمل دیں اور پھر اسے آسانی سے اس کا بہانہ مل جائے کہ وہ اپنا تمام گھٹیا پن اور الزام تراشیاں افغان حکومت اور عوام کے سر ڈال دے۔ لیکن افغان حکومت اور عوام اب بہت دانشمندی اور شعور کے ساتھ قومی مفادات کے فریم ورک میں قدم اٹھا رہے ہیں۔
افغان احکام اب ماضی کی طرح اپنی حاصل کردہ کامیابیوں سے، جنہیں بہت سختیاں اٹھا کر حاصل کیا، آسانی کے ساتھ اور جذباتی پن کے ساتھ محروم نہیں ہوں گے۔ افغان حکومت پاکستان کو مذاکرات کی اور مسائل کے حل کے لیے دیگر بہت سی منطقی تجاویز دی ہیں۔ افغان حکومت کی تجاویز اتنی منطقی ہیں کہ پاکستانی فریق انہیں کھلے عام رد کرنے کی جرأت نہیں رکھتا لیکن ان کی دل سے تائید بھی نہیں کرتا۔
اس کی تمام تر کوششیں یہ ہیں کہ افغان حکومت کو اپنے ساتھ تنازع میں الجھا لے اور پھر مزے سے عالمی برادری کو قائل کرنے کے لیے خود کو اس تنازع سے علیحدہ کر لے اور افغان حکومت کو اس میں پھنسا رہنے دے۔ لیکن یہ خیال محال اور جنون ہے اور کچھ نہیں۔
(نوٹ: مندرجہ بالا تحریر مصنف کی ذاتی رائے ہے، ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔)