انقلاب کے تند و تیز تھپیڑوں نے ملک کے نشیب و فراز کو لرزا کر رکھ دیا، نوجوانوں نے اس آخری امتحان کے لیے اپنی قسمت آزمائی، سب کی خواہش تھی کہ اسے اللہ تعالیٰ کا دیدار دوسروں سے پہلے نصیب ہو جائے۔ لیکن یہ اتنا آسان نہیں تھا، یہ مصائب و پریشانیوں میں گھرا ہوا اور عقیدے کی قوت کے ساتھ انگاروں پر سفر تھا۔
مجاہدین کے تند و تیز حملوں نے دشمن کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا، فتح میں ابھی کچھ وقت باقی تھا، بعض عشق الہٰی کے سمندر میں غوطہ زن ہو گئے، جنت الفردوس کے مرمریں محلات میں چلے گئے، جنت النعیم کے باغوں میں رنگ برنگے پھلوں کے درختوں تلے مرمریں قالینوں پر سو گئے۔
جی ہاں! وہ ایسے جوان تھے کہ جن کا ہر وار حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تلوار کی مانند دشمن کو روند ڈالتا۔
ایسے جوانمردوں میں سے ایک توحید اللہ سلیمان ’’منصوری‘‘ شہید تقبلہ اللہ بھی تھے۔
توحید اللہ سلیمان (منصوری) شہید تقبلہ اللہ ولد کمانڈر عبد الغفور زندانی نے ۱۹۹۵ء میں صوبہ لغمان کے صدر مقام کے قریب گاؤں کچور شمٹی میں اس فانی دنیا میں آنکھ کھولی۔
شہادت کے امیدواروں کے شہید سردار سلیمان منصوری تقبلہ اللہ کا شمار ان غیرت مند غازیوں میں ہوتا ہے جنہوں نے راہِ حق کے لیے اپنی جانوں کا سودہ کیا۔ اپنی کامیابی کی خاطر انتظار کی گھڑیاں شمار کرتے رہے۔ گھنٹے دنوں میں، دن ہفتوں میں اور ہفتے مہینوں میں بدلتے رہے۔ سالوں گزر گئے لیکن سلیمان شہید تقبلہ اللہ کے دلی ارمان کی تکمیل میں ابھی وقت باقی تھا۔
ایسے انتظار میں مظلوم ماؤں اور اسیر ہم وطنوں کی مظلومیت بھری آوازیں کہاں سکون لینے دیتی ہیں؟
اور پھر ایسے راستے پر، کہ جس پر اپنے ہمراہی ساتھیوں نے خون کا نذرانہ پیش کیا ہو۔
جی ہاں! انہوں نے جو عہد باندھے تھے وہ وفا کیے، اور ان کی قربانیاں، محنتیں اور تھکاوٹیں، رب العالمین کے دربار میں قبول ہوئیں۔ ملک فتح کی خوشبو سے معطر ہو گیا، نوجوانوں نے سکھ کا سانس لیا اور مجاہدین نے اس کامیابی کو رب العالمین کا فضل گردانا۔
سلیمان منصوری شہید تقبلہ اللہ میدان جنگ سے پیچھے نہیں رہنا چاہتے تھے، اسلامی نظام کی بقا اور استحکام کے لیے انہوں نے اپنی پوری زندگی وقف کر دی۔
بہادری اور جوانمردی کا پیکر یہ سپاہی ہر وقت تربیتی مراکز میں وقت گزارتا، اپنی قیادت میں صادق اور بہادر تھا، کئی بار حملہ آوروں کے سخت چھاپوں، شدید جنگوں اور بمباریوں میں اللہ تعالیٰ نے کامیاب اور سرخرو کیا۔
ہمیشہ اپنے ہاتھ رب تعالیٰ کے مقدس دربار میں پھیلائے شہادت مانگتے اور فریاد کرتے رہتے۔ اللہ تعالیٰ کو ان کا یہ فریاد کرنا اتنا پسند آگیا کہ انہیں برس ہا برس انتظار کرنے دیا۔
انتظار کے انہی لمحات کے دوران شہادت کے حصول کی خاطر صوبہ کنڑ کے بلند و بالا پہاڑوں کی جانب داعشی خوارج کے شکار کے لیے چلے گئے۔ مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا، داعشی فتنہ گروں کے شر سے امت مسلمہ کی نجات، اور اللہ سبحان و تعالیٰ کے ساتھ اپنا وعدہ پورا کرنا تھا، تاکہ اسلامی نظام کی بحالی کی اس مقدس راہ پر اپنی جان قربان کر کے اخروی سعادتیں حاصل کر سکیں۔
خالقِ کائنات نے ان کے دل کے دونوں ارمان پورے کیے، داعشی فتنہ گروں کے شر کا خاتمہ ہوا، اور خدا کی زمین پر خدا کا نظام نافذ ہو گیا، شہادت کے متمنی سلیمان منصوری شہید تقبلہ اللہ نے کنڑ کے پہاڑوں میں کثیر تعداد میں داعشی خوارج کو موت کے گھاٹ اتارا۔ کافی وقت، ہجرت و جہاد کے بعد بالآخر لغمان کامیاب لوٹے، لیکن ان کی دشمن کی طرف سے نگرانی کرنے والے طیاروں اور جاسوس غلاموں کے ذریعے کڑی نگرانی کی جا رہی تھی۔
مغرور دشمن نے اپنی پوری قوت سے ۱۱ مئی ۲۰۲۰ء رمضان المبارک کے اٹھارہویں روزے، صوبہ لغمان کے ضلع علیشنگ کے علاقے کونجکئی میں آمنے سامنے کی جنگ کی۔ مغرور دشمن کی ۲۲ ہمویز، اور ۱۰۰ کے قریب اعلیٰ و ادنیٰ فوجی اور افسر غازیوں کے راکٹوں اور مشین گنوں کا نشانہ بنے۔ فتح کے آخری مرحلے میں امریکی ڈرون طیارے کے حملے میں جوانمرد مجاہد امیر سلیمان منصوری شہید تقبلہ اللہ اپنے دو غیرت مند ساتھیوں سمیت شہادت کے اعلیٰ مقام کو پا گئے۔
إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّـا إِلَيْهِ رَاجِعونَ .
نحسبه کذالک والله حسیبه.