اسلام کے تربیتی نظام میں بچپن میں صحیح عقیدے کی تاسیس اور بنیاد بہت اہمیت کی حامل ہے کیونکہ بچہ اپنے والدین کے پاس امانت ہوتا ہے اور اس کا دل ہر طرح کے نقوش اور افکار سے خالی اور ہر طرح کے نقوس و افکار کو قبول کرنے کے لیے تیار ہوتا ہے، اس لیے اس کے دل میں درست عقیدے کی بنیاد ڈالنا دنیا و آخرت کی بھلائی اور سعادت ہے اور اس کے ثواب میں اس کے والدین اور اساتذہ شریک ہوتے ہیں۔ اس راستے اور ذمہ داری میں کسی بھی قسم کی غفلت انتہائی خطرناک ہوتی ہے کیونکہ اللہ سبحان وتعالیٰ کا فرمان ہے:
یاأیهالذین آمنو قوا أنفسکم و أهلیکم نارا و قودهاالناس والحجارة (التحریم: ۶)
ترجمہ: اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے۔
اس بنا پر بچپن کا مرحلہ وہ مرحلہ ہے کہ جسے درست عقیدے اور اچھی عادات و اخلاق کی تربیت کا بنیادی مرحلہ کہا جاتا ہے۔ اس مرحلے میں بچہ ہر طرح کے افکار سے پاک ہوتا ہے اور بچے کا دل اور فکر درست عقیدے کی تربیت کے لیے خالی اور تیار ہوتا ہے۔ یہ مرحلہ پاکی اور صفائی کا مرحلہ ہے جس میں دل و فکر ہر طرح کے فساد، منافقت اور گناہ سے پاک ہوتا ہے۔
اس مرحلے میں سب سے اہم چیز جو بچے کے کردار کی تشکیل میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے وہ خاندان اور معاشرہ ہے کہ ایک بچہ اس خاندان اور معاشرے میں کیسے پروان چڑھتا ہے۔ اگر معاشرہ اور ماحول خراب اور کفریہ ہو تو یہ بچے کے عیقدے، نظریات، عادات و اخلاق پر گہرے اثرات مرتب کرتا ہے۔ اگر کوئی بچہ کسی ایسے گھرانے میں پروان چھڑتا ہے کہ جہاں خاندانی نظام، اخلاق اور معنویات موجود نہ ہوں یا موجود تو ہوں لیکن تنزلی کی حالت میں ہوں تو فطری بات ہے کہ اس معاشرے کے بچوں کو ایسے مستقبل کا سامنا کرنا پڑے گا کہ جس میں نہ صرف اس کا گھرانہ بلکہ پورا معاشرہ ایسی حالت کے نقصانات سے محفوظ نہیں ہو گا۔
اگر آج اسلامی معاشرے کے نوجوانوں پر نظر ڈالیں تو امت مسلمہ کے بچوں کی اتنی درست انداز میں اور اسلامی روح اور احساسات کے مطابق تربیت نہیں نظر آتی جتنی ضرورت ہے۔ اگر آج کسی نوجوان کے افکار کا جائزہ لیں تو ایسی کوئی چیز نہیں ملے گی کہ جس سے اس میں امت مسلمہ کی خدمت کا جذبہ اور امید یا امت مسلمہ کی غمخواری اور دفاع کا احساس نظر آئے۔ اس لیے کہ آج جس طرح سے امت مسلمہ کے بچوں کی تربیت کی جاتی ہے وہ ایک ایسے معاشرے میں کی جاتی ہے کہ جس میں بچہ جب سب سے پہلے بات کرنا سیکھتا ہے تو بجائے سب سے پہلے کلمۂ توحید ادا کرنا شروع کرے، گالیاں، بے ادبی، فحش گوئی، بے فائدہ اور برے الفاظ سے بولنے کا آغاز کرتا ہے۔ جب اسے اچھے برے کی پہچان ہونے لگتی ہے اور اس کی تعلیم و تحصیل کا دور شروع ہوتا ہے تب بجائے اس کے کہ اسلام، ایمان، اخلاق، عقیدے اور نظریے کی تعلیم دی جائے، وہ فحش موسیقی، جنسی فلموں اور ٹی وی سیریلز کو دیکھنے میں لگ جاتا ہے۔ اور یہی اخلاقی بیماری پھر اپنے ساتھ اسلامی معاشرے میں عیسائیت، یہودیت اور لادینیت کے عقائد کو پھیلنے کا باعث بنتی ہے۔ اسی وجہ سے عیسائیت کا ایک مبلغ کہتا ہے:
"ہم نے مسلمانوں کی ایک ایسی نسل تیار کر دی ہے جس کا استعمار کو انتظار تھا۔ ایسی نسل جو سختیوں کا مقابلہ نہی کر سکتی، بے پرواہ، راحت طلب اور اتنی پست ہے کہ اگر اسے کوئی اعلی مقام یا مرتبہ مل جائے تو عیش پرستی اور شہرت کے شوق کی وجہ سے جوانمردی نہیں دکھا سکتی۔”
ان میں جوانمردی اس لیے نہیں کہ اسلامی معاشرے میں بچوں کو اسلامی تہذیب و تمدن کی تعلیم نہیں دی جاتی۔ خواندہ و ناخواندہ بچے ہندی و ترکی سیریلز، عشقیہ افسانوں، ناولوں اور کہانیوں کو پڑھنے میں مصروف ہیں، وہ ہر فلم کے ڈائریکٹر اور سٹار کو عالم اسلام کے فاتحین سے زیادہ بہتر جانتے ہیں۔
استعماری طاقتیں امت مسلمہ کے بچوں کے ذہنوں میں اپنے عقائد اور منحوس افکار کے بیچ بو رہے ہیں، اور ان بچوں کی تربیت اسی طرح سے ہو رہی ہے جس طرح استعمار چاہ رہا ہے۔ عیسائی رہنما زویمر کہتا ہے:
"ہم عیسائیت میں ایسے بچوں کو آسانی سے داخل کر پاتے ہیں جن کے گھر میں ایسا کوئی فرد نہ ہو جس نے حقیقی معنوں مٰیں اسلام کی تعلیم دی ہو۔”
تو کہا جاسکتا ہے کہ بحثیت مجموعی مسلمان گھرانوں کی ماؤں بہنوں اور اسلامی نظام کے لیے ضروری ہے کہ وہ ابطالِ اسلام کے وہ تاریخی واقعات جو حقیقت میں پیش آئے ہیں، امت مسلمہ کے بچوں تک پہنچائیں۔ مائیں ان بہادر ماؤں کی داستانیں پڑھیں اور سیکھیں کہ جن کے شوہر اللہ تعالیٰ کی راہ میں شہید ہوئے اور اپنی اولادوں میں بھی قربانی، جہاد اور شہادت کی روح ڈالیں، سب سے پہلے انہیں نیزے، تیر اور کمان بنا کر دیں جن سے وہ آپس میں مقابلہ کر سکیں۔ پھر انہیں قرآن و حدیث کی بنیادی تعلیم سے آراستہ کریں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام کے حقیقی ابطال کی داستانیں انہیں سنائیں اور بالآخر محمد بن قاسم، سلطان محمد فاتح اور صلاح الدین ایوبی جیسے تاریخی شاہکار تشکیل دیں۔
اسلامی حکومت کے لیے ضروری ہے کہ مساجد، سکولوں اور یونیورسٹیوں میں تعلیم کے ذریعے، علمی و تحقیقی سیمینارز کے ذریعے امت مسلمہ کے بچوں کو ایسے نظریات کی تربیت دیں جس سے یہ خوابیدہ امت خواب غفلت سے بیدار ہو جائے اور اور کفار اور باطل پرستوں کی جانب سے ہر طرح کی فکری، استعماری، دعوتی اور عسکری جارحیت سے اپنا دفاع کرسکے۔