جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دینی مدرسے میں ابو ھریرہ، عبد اللہ بن عباس اور معاذ بن جبل کی تربیت کی، اسی طرح اپنی جنگی جامعہ میں "وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّةٍ” کی تفسیر "ألا إنَّ القوَّةَ الرَّميُ” کے ذریعے سے کی۔ جس کے نتیجے میں خالد بن ولید، براء بن مالک اور ابو دوجانہ انصاری (رضی اللہ عنھم) جیسے سپاہی فارغ التحصیل ہوئے۔
اور جیسا کہ سعید بن مسیب، ابو حنیفہ، اوزاعی اور ربیعہ (رحمھم اللہ) نے علمی حلقے قائم کیے، لیکن ان حلقوں کو پھر موسیٰ، طارق، قتیبہ، عقبہ، مسلمہ بن عبد المالک (رحمھم اللہ) کے گھوڑوں اور نيزوں نے مزید تقویت اور اطمینان بخشا۔
اگر ایک طرف فُضَیل بن عیاض اللہ تعالیٰ کی رضا کیلئے حرم میں سخت گرمی میں طواف اور عمرہ کر کے تلاش کر رہے تھے، تو دوسری طرف عبد اللہ بن مبارک تلواروں کے سائے میں اپنے رب کی رضا تلاش کر رہے تھے۔
اگر امام یوسف، امام محمد اور امام مالک (رحمھم اللہ) نے احادیث اور فقہ کی تدوین شروع کی اور موطا، جامع الکبیر اور امالی جیسی کتابیں لکھیں، تو یہ خلیفہ ہارون الرشید کی کھلی تلوار کی برکت تھی جس نے برفانی موسم میں طرسوس کے پہاڑوں میں رومیوں کو بھاگنے پر مجبور کر دیا۔
اگر امام بخاری، مسلم، ترمذی (رحمھم اللہ) جیسے محدثین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث کی خاطر ہزاروں کلومیٹر سفر طے کرتے تھے، تو یہ طویل علمی سفر معتصم اور عباسی خلافت کے گھوڑوں کی رفاقت میں مزید امن و اطمینان کے ساتھ انجام پائے۔
اگر بیت المقدس پر قبضے کی وجہ سے ایوبی اور زنگی کے لب مسکرانا بھول چکے تھے، تو افریقہ کے بنجر دشت و بیابان میں یوسف بن تاشفین نے گھوڑوں پر بحیرہ روم پار کرنے کے لیے زین ڈال دی تھی، تاکہ اندلس کو سقوط سے بچا سکیں۔
اگر ایک طرف لبیک لا شریک لک لبیک کی صدائیں حرم میں گونج رہی تھیں تو وہاں ہند میں سلطان محمود غزنوی کی تکبیروں نے سومنات کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے۔
پتہ نہیں اس امت کو کیا ہو گیا؟ کس کی نظر لگی اور کس طرح ہم اپنے اسلاف کے راستے سے پسپا ہو گئے؟