القدس؛ اُمت کا زخمی دل | تیسری قسط

ابو ہاجر الکردی

مسجد اقصیٰ؛ خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے سفرِ اسراء اور معراج کی جگہ:

قدس، اسراء کے زمینی سفر کا آخری مقام اور معراج کے آسمانی سفر کی آغاز گاہ ہے۔

[سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى]

ترجمہ: پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے (محمد بن عبداللہ) کو رات کے وقت مسجد حرام (مکہ) سے مسجد اقصیٰ (بیت المقدس) تک لے گئی۔

رب العالمین کے حکم سے خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک گئے، جہاں آپ نے انبیاء کے ساتھ ملاقات کی اور ان کی امامت کا فریضہ ادا کیا۔

یہ واقعہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ اب دنیا کی دینی قیادت کا دور پچھلے انبیاء سے ایک نئے امت، نئے کتاب اور نئے پیغمبر کی طرف منتقل ہو گیا، وہ پیغمبر جو تمام انسانوں کے لئے رحمت ہیں، جس کی کتاب عالمی ہے اور اس کی امت بھی عالمی ہے۔ اللہ تعالیٰ جل جلالہ فرماتے ہیں:

[وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ]

ترجمہ: ہم نے آپ کو تمام عالَموں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔

اسراء اور معراج کا واقعہ میں کئی راز پوشیدہ ہیں، جو اس مقدس مقام کی اہمیت کو واضح کرتے ہیں؛ وہ مقام جہاں خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم مسجد الحرام سے حضرت جبرائیل علیہ السلام کی معیت میں اپنے براق پر سوار ہو کر مقام صخرة پر پہنچے، اسی جگہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد اقصیٰ تک پہنچے اور پھر سدرة المنتهی کی طرف اپنا سفر جاری رکھا؛ اس وجہ سے صخرة اور براق کی دیوار مسلمانوں کے لئے ایک دائمی یادگار کے طور پر باقی رہے گی۔

مسجد اقصیٰ؛ مسلمانوں کی تیسری مقدس ترین مسجد:

طبرانی نے ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے کہ مرفوع اور حسن الاسناد حدیث میں آیا ہے:

"صَلَاةُ فِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ بِمِائَةِ أَلْفِ صَلَاةٍ، وَالصَّلَاةُ فِي مَسْجِدِي بِأَلْفِ صَلَاةٍ، وَالصَّلَاةُ فِي بَيْتِ الْمَقْدِسِ بِخَمْسِمِائَةِ صَلَاةٍ.”

ترجمہ: مسجد الحرام میں ایک نماز ایک لاکھ نمازوں کے برابر، مسجد نبوی میں ایک نماز ہزار نمازوں کے برابر اور بیت المقدس میں ایک نماز پانچ سو نمازوں کے برابر اجر و ثواب رکھتی ہے۔

اسی طرح ابو سعید خدری اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

[لَا تُشَدُّ الرِّحَالُ إِلَّا إِلَى ثَلَاثَةِ مَسَاجِدَ: مَسْجِدِي هَذَا، وَمَسْجِدِ الْحَرَامِ، وَمَسْجِدِ الْأَقْصَى]

ترجمہ: سفر صرف تین مساجد کی طرف کیا جائے: میری یہ مسجد (مسجد نبوی)، مسجد الحرام اور مسجد اقصیٰ۔

اس حدیث میں حصر کا صیغہ (صرف) اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ باقی تمام مساجد ان تین مساجد کے برابر نہیں ہیں اور دیگر تمام مساجد میں نماز کا ثواب یکساں ہے۔

بیت المقدس؛ مسلمانوں کا تیسرا عظیم شہر:

بیت المقدس اسلام میں تیسرے عظیم شہر کے طور پر جانا جاتا ہے؛ پہلا شہر مکہ مکرمہ ہے، جسے اللہ تعالیٰ جل جلالہ نے مسجد الحرام کی برکت سے عظمت بخشی ہے:

[إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِي بِبَكَّةَ مُبَارَكًا وَهُدًى لِلْعَالَمِينَ]

ترجمہ: بے شک انسانوں کے لیے پہلا گھر(کعبہ) جو مکہ میں بنایا گیا، وہ برکت والا اور دنیا کے لیے ہدایت کا مقام ہے۔

دوسرا شہر مدینہ منوره ہے، جسے اللہ تعالیٰ جل جلالہ نے مسجد نبوی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قبر کی برکت سے عظمت بخشی ہے۔ تیسرا شہر بیت المقدس ہے، جسے اللہ تعالیٰ جل جلالہ نے مسجد الاقصیٰ کی برکت سے افضل بنایا ہے:

[سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ]

ترجمہ: پاک اور مقدس ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے (محمد صلی اللہ علیہ وسلم) کو رات کے وقت مسجد الحرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گیا، وہ جگہ جس کے ارد گرد ہم نے برکت دی ہے۔

تفسیر معارف القرآن میں "بَارَكْنَا حَوْلَهُ” کے بارے میں ذکر کیا گیا ہے کہ اس آیت میں شام کے علاقے کا ذکر کیا گیا ہے، جو دینی اور دنیوی برکتوں کا مرکز سمجھا جاتا ہے۔

دینی برکتوں میں یہ ہیں کہ یہ علاقہ انبیاء کا قبلہ، ان کا مسکن اور مدفن رہا ہے اور دنیوی برکتوں میں اس علاقے کی سرسبزی، پانی کے ذخائر، باغات اور دیگر قدرتی نعمتیں شامل ہیں۔

Author

Exit mobile version