امام شافعي رحمه الله:
امام شافعی رحمه الله سے پوچھا گیا کہ کیا اس مسلمان کا قتل جائز ہے جو کفار کے ساتھ تعاون کرتا ہے، یعنی وہ مسلمان جو کفار کے لیے مسلمانوں کی جاسوسی کرتا ہے، جیسے مسلمانوں کی حملے کی معلومات دینا یا مسلمانوں کے دیگر راز کفار تک پہنچانا؟ کیا یہ کفار کے ساتھ مسلمانوں کے خلاف تعاون اور مدد دینے کا عمل نہیں ہے؟
امام شافعی رحمه الله نے جواب دیا کہ جو شخص مسلمان ہو، اس کا قتل اس وقت جائز ہوتا ہے جب وہ کسی ناجائز قتل کا مرتکب ہو یا اس نے شادی شدہ ہوتے ہوئے زنا کیا ہو یا ایمان کے بعد واضح اور ظاہر کفر کرے اور پھر اس کفر پر ثابت رہے۔
انہوں نے مزید فرمایا کہ اگر کوئی مسلمان کفار کے ساتھ تعاون کرتا ہے اور مسلمانوں کے خلاف ان کی مدد کرتا ہے، جیسے مسلمانوں کی حملے کی اطلاع دینا تاکہ کفار تیار ہوں یا اپنے آپ کو بچا سکیں یا کفار مسلمانوں کو نقصان پہنچانے میں پیش قدمی کریں، تو یہ سب کفرِ بَین (واضح کفر) ہے اور ایسے شخص کا قتل جائز ہے۔
ربیع رحمہ اللہ کہتے ہیں: میں نے امام شافعی رحمہ اللہ سے پوچھا، کیا آپ یہ بات حدیث کی بنیاد پر کہہ رہے ہیں یا قیاس کے مطابق؟ امام شافعی رحمہ اللہ نے جواب دیا، میں نے یہ بات حدیث کی بنیاد پر کہی ہے، اور پھر انہوں نے حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ذکر کی۔
امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
حاطب رضی اللہ عنہ کا یہ خط تین احتمالات رکھتا ہے:
پہلا احتمال وہ ہے جو حاطب رضی اللہ عنہ نے خود ذکر کیا، کہ میں نے یہ عمل ارتداد کی وجہ سے نہیں کیا، بلکہ میں نے یہ کام اپنی ذاتی مفاد کے لیے کیا تھا، کیونکہ میں قریش پر احسان کرنا چاہتا تھا تاکہ اپنے اہل و عیال کا خیال رکھ سکوں۔
دوسرا احتمال یہ ہے کہ حاطب رضی اللہ عنہ نے یہ عمل اس وجہ سے نہ کیا ہو کہ نعوذ باللہ اسلام سے منحرف ہو گئے ہوں، بلکہ وہ غلطی یا لغزش کا شکار ہوئے ہوں۔
تیسرا احتمال یہ ہے کہ اس عمل کا محرک انتہائی ناپسندیدہ معنی بھی ہو سکتے ہیں، یعنی نعوذ باللہ وہ مرتد یا عقیدوی منافق ہو گئے ہوں۔
امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ان احتمالات میں سب سے زیادہ اعتبار حاطب رضی اللہ عنہ کے بیان کو دیا گیا، کیونکہ انہوں نے خود اپنی نیت کو واضح کیا۔ رسول اللہ ﷺ نے حاطب رضی اللہ عنہ کے قتل کا حکم نہ دے کر اس بات کی تصدیق کی کہ وہ ارتداد یا منافقت کی حالت میں نہیں تھے، بلکہ ان کا عمل غلطی یا لغزش کی وجہ سے تھا۔
امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
رسول اللہ ﷺ کی شان بہت بلند ہے، حاطب رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ کی جاسوسی کی تھی، لیکن پھر بھی جو احتمال انہوں نے بیان کیا، اس کی تصدیق ہوئی اور ان کی بات قبول کی گئی، تو پھر جو کوئی بھی ایسی جاسوسی کرے گا، اس کی بات بھی اسی طرح تصدیق کی جائے گی اور اس کی بات کو قبول کیا جائے گا۔
امام شافعی رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا:
امام صاحب! اگر کوئی یہ سوال کرے کہ رسول اللہ ﷺ نے حاطب رضی اللہ عنہ کی تصدیق اس لیے نہیں کی کہ ان کا یہ عمل ممکن ہے کہ ارتداد کی وجہ سے ہو، بلکہ شاید انہوں نے یہ عمل اپنے ذاتی مفاد اور فائدے کے لیے کیا ہو، جیسے کہ حاطب رضی اللہ عنہ نے اپنے عمل کی وضاحت کی تھی، تو کیا اس کا مطلب یہ نہیں کہ حاطب رضی اللہ عنہ کی صداقت میں کوئی شبہ ہے، بلکہ رسول اللہ ﷺ کو اپنے علم اور فہم کے مطابق یہ یقین تھا کہ حاطب رضی اللہ عنہ واقعی سچ کہہ رہے ہیں کہ انہوں نے یہ کام ذاتی مفاد کے لیے کیا، نہ کہ عقیدے کی خرابی یا خباثت کی بنیاد پر؟
تو جواب یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو خوب علم تھا کہ منافقین اپنے قول میں جھوٹے اور دروغ گو ہیں، لہذا یہاں حاطب رضی اللہ عنہ اس واقعے میں اس وجہ سے بچ گئے کہ نبی ﷺ کو یہ علم تھا کہ حقیقت میں وہ سچے ہیں، نہ کہ حاطب رضی اللہ عنہ کا وہ ظاہری قول قبول کیا گیا جو کہ اس عمل کے تین ممکنہ وجوہات میں سے ایک تھا۔
پھر یہ کہا جا سکتا ہے کہ منافقین کے ظاہری قول پر اعتبار نہیں کیا جائے گا اور نبی ﷺ کے علم کی بنیاد پر منافقین کو قتل کیا گیا ہوتا، لیکن نبی ﷺ نے ہر ایک کے بارے میں ان کے ظاہری قول پر ہی فیصلہ کیا، باقی اسرار اللہ کی مشیت پر چھوڑ دیے گئے ہیں۔
مقصد یہ ہے کہ اگر کوئی شخص ایسا مجرمانہ عمل کرے اور اس کے عمل کے لیے کوئی ممکنہ توجیہ پیش کرے، تو اس کی توجیہ کو تسلیم کیا جائے گا۔ اگر وہ کہے کہ اس نے یہ عمل ارتداد عن الدین کی وجہ سے نہیں کیا بلکہ دنیاوی مفاد کے لیے کیا، تو اسے مرتد نہیں سمجھا جائے گا اور اس کی توجیہ کو قبول کیا جائے گا۔ تاہم سزا دینے میں امام کو اختیار حاصل ہوگا۔
امام شافعی رحمہ اللہ کی کتاب ’’الأم‘‘ چوتھی جلد صفحہ ۲۶۴ اور تفسیر الإمام الشافعی کی تیسری جلد صفحہ ۳۳۵ پر اس سوال اور جواب کو ذکر کیا گیا ہے:
(الْمُسْلِمُ يَدُلُّ الْمُشْرِكِينَ عَلَى عَوْرَةِ الْمُسْلِمِينَ)
قِيلَ لِلشَّافِعِيِّ: أَرَأَيْتَ الْمُسْلِمَ يَكْتُبُ إلَى الْمُشْرِكِينَ مِنْ أَهْلِ الْحَرْبِ بِأَنَّ الْمُسْلِمِينَ يُرِيدُونَ غَزْوَهُمْ أَوْ بِالْعَوْرَةِ مِنْ عَوْرَاتِهِمْ هَلْ يُـحِلُّ ذَلِكَ دَمَهُ وَيَكُونُ فِي ذَلِكَ دَلَالَةٌ عَلَى مُمَالَأَةِ الْمُشْرِكِينَ؟
(قَالَ الشَّافِعِيُّ – رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى -) :
لَا يَحِلُّ دَمُ مَنْ ثَبَتَتْ لَهُ حُرْمَةُ الْإِسْلَامِ إلَّا أَنْ يَقْتُلَ أَوْ يَزْنِيَ بَعْدَ إحْصَانٍ أَوْ يَكْفُرَ كُفْرًا بَيِّنًا بَعْدَ إيمَانٍ ثُمَّ يَثْبُتُ عَلَى الْكُفْرِ وَلَيْسَ الدَّلَالَةُ عَلَى عَوْرَةِ مُسْلِمٍ وَلَا تَأْيِيدُ كَافِرٍ بِأَنْ يُحَذِّرَ أَنَّ الْمُسْلِمِينَ يُرِيدُونَ مِنْهُ غِرَّة لِيُحَذَّرَهَا أَوْ يَتَقَدَّمَ فِي نِكَايَةِ الْمُسْلِمِينَ بِكُفْرٍ بَيِّنٍ، فَقُلْت لِلشَّافِعِيِّ: أَقَلْتَ هَذَا خَبَرًا أَمْ قِيَاسًا؟ قَالَ قُلْتُهُ بِمَا لَا يَسَعُ مُسْلِمًا عَلِمَهُ عِنْدِي أَنْ يُخَالِفَهُ بِالسُّنَّةِ الْمَنْصُوصَةِ بَعْدَ الِاسْتِدْلَالِ بِالْكِتَابِ،
فَقِيلَ لِلشَّافِعِيِّ:
فَذكر السُّنَّة فِيهِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ عَنْ الْحَسَنِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي رَافِعٍ قَالَ: «سَمِعْتُ عَلِيًّا يَقُولُ بَعَثَنَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ أَنَا وَالْمِقْدَاد وَالزُّبَيْر، فَقَالَ: انْطَلِقُوا حَتَّى تَأْتُوا رَوْضَةَ خَاخٍ، فَإِنَّ بِهَا ظَعِينَةً، مَعَهَا كِتَابٌ.
فَخَرَجْنَا تَعَادَى بِنَا خَيْلُنَا، فَإِذَا نَحْنُ بِالظَّعِينَةِ، فَقُلْنَا لَهَا: أَخْرِجِي الْكِتَابَ، فَقَالَتْ: مَا مَعِي كِتَابٌ، فَقُلْنَا: لَتُخْرِجِنَّ الْكِتَابَ أَوْ لَتُلْقِيَنَّ الثِّيَابَ فَأَخْرَجَتْهُ مِنْ عِقَاصِهَا، فَأَتَيْنَا بِهِ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ، فَإِذَا فِيهِ: مِنْ حَاطِبِ بْنِ أَبِي بَلْتَعَةَ إلَى نَاسٍ مِنَ الْمُشْرِكِينَ مِمَّنْ بِمَكَّةَ، يُخْبِرُ بِبَعْضِ أَمْرِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "مَا هَذَا يَا حَاطِبُ؟” قَالَ: لَا تَعْجَلْ عَلَيَّ يَا رَسُولَ اللَّهِ، إنِّي كُنْت امْرَأً مُلْصَقًا فِي قُرَيْشٍ، وَلَمْ أَكُنْ مِنْ أَنْفُسِهَا، وَكَانَ مَنْ مَعَك مِنَ الْمُهَاجِرِينَ لَهُمْ قَرَابَاتٌ يَحْمُونَ بِهَا قَرَابَاتِهِمْ، وَلَمْ يَكُنْ لِي بِمَكَّةَ قَرَابَةٌ، فَأَحْبَبْت إذْ فَاتَنِي ذَلِكَ أَنْ أَتَّخِذَ عِنْدَهُمْ يَدًا، وَاَللَّهِ مَا فَعَلْتُهُ شَكًّا فِي دِينِي، وَلَا رِضًا لَا كُفْرًا بَعْدَ الْإِسْلَامِ،
فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ:
"إنَّهُ قَدْ صَدَقَ” فَقَالَ عُمَرُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! دَعْنِي أَضْرِبُ عُنُقَ هَذَا الْمُنَافِقِ، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: "إنَّهُ قَدْ شَهِدَ بَدْرًا، وَمَا يُدْرِيَك لَعَلَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ قَدِ اطَّلَعَ عَلَى أَهْلِ بَدْرٍ، فَقَالَ: اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ فَقَدْ غَفَرْت لَكُمْ”. قَالَ: فَنَزَلَتْ ﴿يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا عَدُوِّىْ وَعَدُوَّكُمْ اَوْلِيَآءَ﴾ [الممتحنة: 1]
(قَالَ الشَّافِعِيُّ – رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى -) : فِي هَذَا الْحَدِيثِ مَعَ مَا وَصَفْنَا لَك طَرْح الْحُكْمِ بِاسْتِعْمَالِ الظُّنُونِ؛ لِأَنَّهُ لَمَّا كَانَ الْكِتَابُ يَحْتَمِلُ أَنْ يَكُونَ مَا قَالَ حَاطِبٌ، كَمَا قَالَ مِنْ أَنَّهُ لَمْ يَفْعَلْهُ شَاكًّا فِي الْإِسْلَامِ، وَأَنَّهُ فَعَلَهُ لِيَمْنَعَ أَهْلَهُ، وَيُحْتَمَلُ أَنْ يَكُونَ زَلَّةً لَا رَغْبَةً عَنْ الْإِسْلَامِ، وَاحْتَمَلَ الْمَعْنَى الْأَقْبَحَ، كَانَ الْقَوْلُ قَوْلَهُ فِيمَا احْتُمِلَ فِعْلُهُ، وَحكم رَسُول اللَّهِ ﷺ فِيهِ بِأَنْ لَمْ يَقْتُلْهُ وَلَمْ يَسْتَعْمِلْ عَلَيْهِ الْأَغْلَبَ، وَلَا أَحَدٌ أَتَى فِي مِثْلِ هَذَا أَعْظَمُ فِي الظَّاهِرِ مِنْ هَذِهِ؛ لِأَنَّ أَمْرَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ مُبَايِنٌ فِي عَظَمَتِهِ لِجَمِيعِ الْآدَمِيِّينَ بَعْدَهُ، فَإِذَا كَانَ مَنْ خَابَرَ الْمُشْرِكِينَ بِأَمْرِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ وَرَسُولُ اللَّهِ ﷺ يُرِيدُ غِرَّتَهُمْ:
فَصَدَّقَهُ مَا عَابَ عَلَيْهِ الْأَغْلَبَ مِمَّا يَقَعُ فِي النُّفُوسِ، فَيَكُونُ لِذَلِكَ مَقْبُولًا كَانَ مِنْ بَعْدِهِ فِي أَقَلَّ مِنْ حَالِهِ، وَأَوْلَى أَنْ يَقْبَلَ مِنْهُ مِثْلَ مَا قَبِلَ مِنْهُ، قِيلَ لِلشَّافِعِيِّ: أَفَرَأَيْتَ إنْ قَالَ قَائِلٌ: إنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: "قَدْ صَدَقَ”، إنَّمَا تَرَكَهُ لِمَعْرِفَتِهِ بِصِدْقِهِ، لَا بِأَنَّ فِعْلَهُ كَانَ يَحْتَمِلُ الصِّدْقَ وَغَيْرَهُ،
فَيُقَالُ لَهُ: قَدْ عَلِمَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ أَنَّ الْمُنَافِقِينَ كَاذِبُونَ، وَحَقَنَ دِمَاءَهُمْ بِالظَّاهِرِ، فَلَوْ كَانَ حُكْمُ النَّبِيِّ ﷺ فِي حَاطِبٍ بِالْعِلْمِ بِصِدْقِهِ كَانَ حُكْمُهُ عَلَى الْمُنَافِقِينَ الْقَتْلَ، بِالْعِلْمِ بِكَذِبِهِمْ، وَلَكِنَّهُ إنَّمَا حَكَمَ فِي كُلٍّ بِالظَّاهِرِ، وَتَوَلَّى اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ مِنْهُمْ السَّرَائِرَ، وَلِئَلَّا يَكُونَ لِحَاكِمٍ بَعْدَهُ أَنْ يَدَعَ حُكْمًا لَهُ مِثْلَ مَا وَصَفْت مِنْ عِلَلِ أَهْلِ الْجَاهِلِيَّةِ، وَكُلُّ مَا حَكَمَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فَهُوَ عَامٌّ حَتَّى يَأْتِيَ عَنْهُ دَلَالَةً عَلَى أَنَّهُ أَرَادَ بِهِ خَاصًّا أَوْ عَنْ جَمَاعَةِ الْمُسْلِمِينَ الَّذِينَ لَا يُمْكِنُ فِيهِمْ أَنْ يَجْعَلُوا لَهُ سُنَّةً أَوْ يَكُونُ ذَلِكَ مَوْجُودًا فِي كِتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ.
ربیع رحمه الله کہتے ہیں:
میں نے امام شافعی رحمه الله سے سوال کیا کہ اگر کوئی شخص یہ جرم کرے، تو آپ کیا حکم دیں گے؟ کیا اس مجرم کو معاف کردیا جائے گا جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حاطب رضی اللہ عنہ کو معاف کیا تھا؟ یا اس کو سزا دی جائے گی؟ تو امام شافعی رحمه الله نے جواب دیا کہ: امام حدود کو کسی صورت میں معطل نہیں کر سکتے، لیکن دیگر سزائیں امام اپنے اجتہاد سے ترک کر سکتے ہیں، جیسا کہ وہ فرماتے ہیں:
قُلْت لِلشَّافِعِيِّ: أَفَتَأْمُرُ الْإِمَامَ إذَا وَجَدَ مِثْلَ هَذَا بِعُقُوبَةِ مَنْ فَعَلَهُ أَمْ تَرْكُهُ كَمَا تَرَكَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقَالَ الشَّافِعِيُّ: إنَّ الْعُقُوبَاتِ غَيْرُ الْحُدُودِ، فَأَمَّا الْحُدُودُ فَلَا تُعَطَّلُ بِحَالٍ، وَأَمَّا الْعُقُوبَاتُ فَلِلْإِمَامِ تَرْكُهَا عَلَى الِاجْتِهَادِ، وَقَدْ رُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّهُ قَالَ: «تَجَافَوْا لِذَوِي الْهَيْئَاتِ».
امام ابو یوسف رحمه الله:
امام ابو یوسف رحمه الله سے امیرالمؤمنین ہارون الرشید رحمه الله نے جاسوسوں کے بارے میں سوال کیا تھا، تو امام ابو یوسف رحمه الله نے جواب دیا کہ: اگر جاسوس ذمی (مذہبی اقلیت سے تعلق رکھنے والا) یا حربی (جنگی دشمن) ہو تو اس کو قتل نہیں کیا جائے گا، لیکن اگر وہ مسلمان ہو تو اسے جیل میں ڈال کر سزا دی جائے گی، یہاں تک کہ وہ توبہ کر لے۔ یہ بات ’’کتاب الخراج‘‘ کی پہلی جلد صفحہ ۲۰۷ پر مذکور ہے:
عُقُوبَة الجاسوس عُمُومًا:
وَسَأَلْتَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ عَنْ الْجَوَاسِيسِ يُوجَدُونَ وَهُمْ مِنْ أَهْلِ الذِّمَّة أَو أهل الْحَرْب أَوْ مِنَ الْمُسْلِمِينَ؛ فَإِنْ كَانُوا مِنْ أَهْلِ الْحَرْبِ أَوْ مِنْ أَهْلِ الذِّمَّةِ مِمَّنْ يُؤَدِّي الْجِزْيَةَ مِنَ الْيَهُودِ وَالنَّصَارَى وَالْمَجُوسِ فَاضْرِبْ أَعْنَاقَهُمْ، وَإِنْ كَانُوا مِنْ أَهْلِ الإِسْلامِ مَعْرُوفِينَ فَأَوْجِعْهُمْ عُقُوبَةً، وَأَطِلْ حَبسهم حَتَّى يحدثوا تَوْبَة.
لہذا آپ دیکھیں کہ امام ابو یوسف رحمہ اللہ نے مسلمان جاسوس کو مرتد قرارنہیں دیا، اگرچہ کفار کے لیے مسلمانوں کے جاسوسی کرنا اہم تعاون اور کفار کی مدد ہے۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔