بعض مسلمانوں کے خلاف کفار سے تعاون (مدد) کے چند جائز صورتیں:
اگر مسلمانوں کی قیادت اسلامی مفادات اور امتِ مسلمہ کے اجتماعی فائدے کے پیشِ نظر کفار کے ساتھ کسی معاہدے کے تحت مسلمانوں کے خلاف تعاون کرے، تو اس کی بھی کچھ صورتیں جائز ہو سکتی ہیں۔
جیسا کہ نبی کریم ﷺ نے ایک معاہدے کی بنیاد پر ابو جندل اور ابو بصیر رضی اللہ عنہما کو کفار کے حوالے کیا تھا، کیونکہ یہ معاہدہ قریش کے ساتھ ہوا تھا، جس کے مطابق اگر کوئی قریش سے نیا مسلمان ہوکر مدینہ منورہ (اللہ اس شہر کو مزید روشن اور مشرف فرمائے) آئے، تو اسے قریش کے حوالے کیا جائے گا۔
اسی طرح چند سال پہلے جب افغانستان کی امارت اسلامی (نصرها الله وأعزها) کی قیادت (اللہ ان کی حفاظت فرمائے اور انہیں نصرت عطا کرے) نے امریکا کے ساتھ قطر کے شہر دوحہ میں ایک تاریخی اور قابلِ فخر معاہدہ کیا، جس کے مطابق امریکا اور اس کے اتحادی افواج چودہ مہینوں کے اندر افغانستان سے انخلاء کریں گے، اور مستقبل میں افغانستان کے داخلی امور میں مداخلت نہیں کریں گے۔ اس کے بدلے میں اسلامی امارت (أعزها الله ونصرها) اس بات کی پابند ہو گی کہ اپنی سرزمین کسی کو بھی استعمال کرنے کی اجازت نہیں دے گی جو امریکا اور اس کے اتحادیوں کے خلاف کارروائیاں کرے۔
پس، یہ بھی مسلمانوں کے ایک مخصوص گروہ کے خلاف کفار سے ایک طرح کی مدد ہے، لیکن چونکہ یہ معاہدہ اسلام اور مسلمانوں کے وسیع تر مفاد اور تحفظ کے لیے کیا گیا ہے، اس لیے شرعی لحاظ سے یہ تعاون جائز ہے۔
جیسا کہ علامہ ابن القیم الجوزی رحمہ اللہ نے زاد المعاد کی جلد نمبر ۳، صفحہ ۲۶۷ پر فرمایا ہے:
ومنها: أن مصالحة المشركين ببعض ما فيه ضيم على المسلمين جائزة للمصلحة الراجحة، ودفع ما هو شر منه، ففيه دفع أعلى المفسدتين باحتمال أدناهما.
اور پھر اسی صفحے پر چند سطروں بعد فرماتے ہیں:
ومنها: جواز صلح الكفار على رد من جاء منهم إلى المسلمين وألا يرد من ذهب من المسلمين إليهم، هذا في غير النساء، وأما النساء فلا يجوز اشتراط ردهن إلى الكفار، وهذا موضع النسخ خاصة في هذا العقد بنص القرآن، ولا سبيل إلى دعوى النسخ فى غيره بغير موجب.
علامه ابن عاشور المالکی رحمه الله:
علامه ابن عاشور المالکی رحمه الله اپنی تفسیر ’’التحریر والتنویر‘‘ میں سورة آل عمران ۲۷ نمبر آیت کی تفسیر میں موالات کی صورتیں اور ان کے احکام ذکر کیے ہیں:
۱۔ پہلی صورت:
اگر کوئی مسلمان دل سے کفار کے دین کو پسند کرے، اس کی طرف میلان رکھے، اور اسی جذبے کے تحت کفار کے کسی گروہ سے محبت رکھے، باوجود اس کے کہ وہ اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہو تو یہ حالت کفر اور نفاق کی ہے۔
۲۔ دوسری صورت:
اگر کوئی مسلمان، کسی خاندانی تعلق یا کسی اور دنیوی محبت کی بنیاد پر کفار کی کسی جماعت سے دوستی، تعاون یا محبت کرے، مگر ان کے کفریہ عقائد سے نفرت رکھتا ہو، لیکن یہ کفار اسلام کے دشمن ہوں، اسلام کی توہین کرتے ہوں، اور مسلمانوں کو اذیت دیتے ہوں تو یہ عمل کفر تو نہیں، مگر گناہ کبیرہ ہے۔
۳۔ تیسری صورت:
اگر کوئی مسلمان ان کفار سے دوستی یا تعاون کرے جو اسلام کے خلاف کھلم کھلا دشمنی نہیں کرتے، اور نہ ہی اس کی توہین کرتے ہیں، جیسے ابتدائے اسلام میں کچھ نصرانی عرب یا حبشہ کے لوگ جنہوں نے مسلمانوں کو پناہ دی تو امام رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ عمل پہلی دو صورتوں کے درمیان ایک درمیانی حالت ہے، لیکن یہ بھی منع کیا گیا ہے، کیونکہ اس کے بعض اوقات نقصانات ہو سکتے ہیں۔
۴۔ چوتھی صورت:
اگر کوئی مسلمان کفار کی مدد اس نیت سے کرے کہ مسلمانوں کے کسی دوسرے گروہ کو نقصان پہنچائے یا ان پر فتح حاصل کرے تو اس صورت کے شرعی احکام مختلف ہیں، ان کے احکام حالات پر منحصر ہیں۔
۵۔ پانچویں صورت:
اگر مسلمان اپنے دشمنوں کے خلاف غلبہ پانے کے لیے کسی کفار کے گروہ سے دوستی کرے، اور وہ کفار اس مسلمان سے محبت کا اظہار کریں اور مدد کی پیشکش کریں تو اس مسئلے میں علماء کے درمیان اختلاف ہے۔
۶۔ چھٹی صورت:
اگر کوئی مسلمان کسی خاص کافر سے صرف ذاتی اچھے تعلق، حسنِ سلوک، رشتہ داری یا اس کی کسی خوبی کی وجہ سے دوستی رکھے، اور اس سے کسی مسلمان کو کوئی نقصان نہ ہو تو اس قسم کی دوستی جائز ہے۔
۷۔ ساتویں صورت:
دنیاوی معاملات، جیسے تجارت، معاہدات یا صلح وغیرہ تو ان کے احکام حالات کے حساب سے مختلف ہیں، اور ان کی تفصیل فقہ کی کتابوں میں موجود ہے۔
۸۔ آٹھویں صورت:
اگر کوئی مسلمان کفار کے ظلم سے بچنے کے لیے بظاہر ان سے دوستی یا نرمی کا رویہ اختیار کرے، تو یہ تقیہ کی صورت ہے، جس کی اجازت قرآن میں بھی دی گئی ہے، جیسا کہ فرمایا:
﴿اِلَّاۤ اَنْ تَتَّقُوْا مِنْهُمْ تُقٰىةً﴾ (یعنی اگر تم ان سے بچاؤ کی خاطر نرمی اختیار کرو تو جائز ہے۔
یہ ابن عاشور رحمہ اللہ کے تفصیلی اور مفصل بیان کا خلاصہ اور مطلب تھا۔
تو اس پوری تفصیلی تحریر اور تمام اقسام میں انہوں نے صرف پہلی قسم کو کفر اور نفاق قرار دیا ہے، کیونکہ وہ عقیدے کی خرابی اور باطنی خباثت پر مبنی ہے۔
باقی تمام اقسام کو انہوں نے کفر نہیں کہا۔ ابن عاشور رحمہ اللہ کا اصل عبارت کچھ یوں ہے:
وَالْآيَةُ نَهْيٌ عَنْ مُوَالَاةِ الْكَافِرِينَ دُونَ الْمُؤْمِنِينَ بِاعْتِبَارِ الْقَيْدِ أَوْ مُطْلَقًا، وَالْمُوَالَاةُ تَكُونُ بِالظَّاهِرِ وَالْبَاطِنِ وَبِالظَّاهِرِ فَقَطْ، وَتَعْتَوِرُهَا أَحْوَالٌ تَتْبَعُهَا أَحْكَامٌ، وَقَدِ اسْتَخْلَصْتُ مِنْ ذَلِكَ ثَمَانِيَةَ أَحْوَالٍ:
الْحَالَةُ الْأُولَى: أَنْ يَتَّخِذَ الْمُسْلِمُ جَمَاعَةَ الْكُفْرِ أَوْ طَائِفَتَهُ أَوْلِيَاءَ لَهُ فِي بَاطِنِ أَمْرِهِ مَيْلًا إِلَى كُفْرِهِمْ وَنِوَاءً لِأَهْلِ الْإِسْلَامِ، وَهَذِهِ الْحَالَةُ كُفْرٌ، وَهِيَ حَالُ الْمُنَافِقِينَ،
وَفِي حَدِيثِ عِتْبَانَ بْنِ مَالِكٍ: "أَنَّ قَائِلًا قَالَ فِي مَجْلِسِ رَسُول الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَيْنَ مَالِكُ بْنُ الدُّخْشُنِ»، فَقَالَ آخَرُ: «ذَلِكَ مُنَافِقٌ لَا يُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ». فَقَالَ النبي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا تَقُلْ ذَلِكَ أَمَا سَمِعْتَهُ يَقُولُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ يَبْتَغِي بِذَلِكَ وَجْهَ اللهِ» فَقَالَ الْقَائِلُ: «اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، فَإِنَّا نَرَى وَجْهَهُ وَنَصِيحَتَهُ إِلَى الْمُنَافِقِينَ».
فَجَعَلَ هَذَا الرَّجُلُ الِانْحِيَازَ إِلَى الْمُنَافِقِينَ عَلَامَةً عَلَى النِّفَاقِ لَوْلَا شَهَادَةُ الرَّسُولِ لِمَالِكٍ بِالْإِيمَانِ، أَيْ فِي قَلْبِهِ مَعَ إِظْهَارِهِ بِشَهَادَةِ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ.
الْحَالَةُ الثَّانِيَةُ: الرُّكُونُ إِلَى طَوَائِفِ الْكُفْرِ وَمُظَاهَرَتُهُمْ لِأَجْلِ قَرَابَةٍ وَمَحَبَّةٍ دُونَ الْمَيْلِ إِلَى دِينِهِمْ، فِي وَقْتٍ يَكُونُ فِيهِ الْكُفَّارُ مُتَجَاهِرِينَ بِعَدَاوَةِ الْمُسْلِمِينَ، والاستهزاء بهم، وَإِذا هم كَمَا كَانَ مُعْظَمُ أَحْوَالِ الْكُفَّارِ عِنْدَ ظُهُورِ الْإِسْلَامِ مَعَ عَدَمِ الِانْقِطَاعِ عَنْ مَوَدَّةِ الْمُسْلِمِينَ، وَهَذِهِ حَالَةٌ لَا تُوجِبُ كُفْرَ صَاحِبِهَا، إلّا أنّ ارتكبها إِثْمٌ عَظِيمٌ، لِأَنَّ صَاحِبَهَا يُوشِكُ أَنْ يُوَالِيَهُمْ عَلَى مَضَرَّةِ الْإِسْلَامِ عَلَى أَنَّهُ مِنَ الْوَاجِبِ إِظْهَارُ الْحَمِيَّةِ لِلْإِسْلَامِ وَالْغَيْرَةِ عَلَيْهِ، كَمَا قال الْعَتَّابِيُّ:
تَوَدُّ عَدُوِّي ثُمَّ تَزْعُمُ أَنَّنِي . . . . . صَدِيقُكَ إِنَّ الرَّأْيَ عَنْكَ لَعَازِبُ
وَفِي مِثْلِهَا نَزَلَ قَوْلُهُ تَعَالَى: ﴿يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الَّذِيْنَ اتَّخَذُوْا دِيْنَكُمْ هُزُوًا وَّلَعِبًا مِّنَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَالْكُفَّارَ اَوْلِيَآءَ ج﴾ [الْمَائِدَة: 9]
قَالَ ابْنُ عَطِيَّةَ: كَانَتْ كُفَّارُ قُرَيْشٍ مِنَ الْمُسْتَهْزِئِينَ» وَفِي مِثْلِ ذَلِكَ وَرَدَ قَوْلُهُ تَعَالَى: ﴿اِنَّمَا يَنْهٰىكُمُ اللّٰهُ عَنِ الَّذِيْنَ قَاتَلُوْكُمْ فِى الدِّيْنِ وَاَخْرَجُوْكُمْ مِّنْ دِيَارِكُمْ﴾ [الممتحنة: 9] الْآيَةَ وَقَوْلُهُ تَعَالَى: ﴿يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا بِطَانَةً مِّنْ دُوْنِكُمْ لَا يَاْلُوْنَكُمْ خَبَالًا﴾ [آل عمرَان: 118] الْآيَةَ، نَزَلَتْ فِي قَوْمٍ كَانَ، بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ الْيَهُودِ، جِوَارٌ وَحِلْفٌ فِي الْجَاهِلِيَّة، فداوموا عَلَيْهِ فِي الْإِسْلَامِ، فَكَانُوا يَأْنَسُونَ بِهِمْ وَيَسْتَنِيمُونَ إِلَيْهِمْ، وَمِنْهُمْ أَصْحَابُ كَعْبِ بْنِ الْأَشْرَفِ، وَأَبِي رَافِعِ ابْن أَبِي الْحُقَيْقِ، وَكَانَا يُؤْذِيَانِ رَسُول الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
الْحَالَةُ الثَّالِثَةُ: كَذَلِكَ، بِدُونِ أَنْ يَكُونَ طَوَائِفُ الْكُفَّارِ مُتَجَاهِرِينَ بِبُغْضِ الْمُسْلِمِينَ وَلَا بِأَذَاهُمْ، كَمَا كَانَ نَصَارَى الْعَرَبِ عِنْدَ ظُهُورِ الْإِسْلَامِ قَالَ تَعَالَى: ﴿وَلَتَجِدَنَّ اَقْرَبَهُمْ مَّوَدَّةً لِّلَّذِيْنَ اٰمَنُوا الَّذِيْنَ قَالُوْۤا اِنَّا نَصٰرٰى﴾ [الْمَائِدَة: 82] وَكَذَلِكَ كَانَ حَالُ الْحَبَشَةِ، فَإِنَّهُمْ حَمَوُا الْمُؤْمِنِينَ وَآوَوْهُمْ، قَالَ الْفَخْرُ: وَهَذِهِ وَاسِطَةٌ، وَهِيَ لَا تُوجِبُ الْكُفْرَ، إِلَّا أَنَّهُ مَنْهِيٌّ عَنْهُ، إِذْ قَدْ يَجُرُّ إِلَى اسْتِحْسَانِ مَا هُمْ عَلَيْهِ وَانْطِلَاءِ مَكَائِدِهِمْ عَلَى الْمُسْلِمِينَ.
الْحَالَةُ الرَّابِعَةُ: مُوَالَاةُ طَائِفَةٍ مِنَ الْكُفَّارِ لِأَجْلِ الْإِضْرَارِ بِطَائِفَةٍ مُعَيَّنَةٍ مِنَ الْمُسْلِمِينَ مِثْلَ الِانْتِصَارِ بِالْكُفَّارِ عَلَى جَمَاعَةٍ مِنَ الْمُسْلِمِينَ، وَهَذِهِ الْحَالَةُ أَحْكَامُهَا مُتَفَاوِتَةٌ، فَقَدْ قَال مَالِكٌ فِي الْجَاسُوسِ يَتَجَسَّسُ لِلْكُفَّارِ عَلَى الْمُسْلِمِينَ: إِنَّهُ يُوكَلُ إِلَى اجْتِهَادِ الْإِمَامِ، وَهُوَ الصَّوَابُ؛ لِأَنَّ التَّجَسُّسَ يَخْتَلِفُ الْمَقْصِدُ مِنْهُ؛ إِذْ قَدْ يَفْعَلُهُ الْمُسْلِمُ غُرُورًا، وَيَفْعَلُهُ طَمَعًا، وَقَدْ يَكُونُ عَلَى سَبِيلِ الْفَلْتَةِ، وَقَدْ يَكُونُ لَهُ دَأْبًا وَعَادَةً، وَقَالَ ابْنُ الْقَاسِمِ: ذَلِكَ زَنْدَقَةٌ لَا تَوْبَةَ فِيهِ، أَيْ لَا يُسْتَتَابُ وَيُقْتَلُ كَالزِّنْدِيقِ، وَهُوَ الَّذِي يُظْهِرُ الْإِسْلَام وَيسر الْكفَّار، إِذَا اطُّلِعَ عَلَيْهِ، وَقَالَ ابْنُ وَهْبٍ: رِدَّةٌ وَيُسْتَتَابُ، وَهُمَا قَوْلَانِ ضَعِيفَانِ مِنْ جِهَةِ النَّظَرِ.
وَقَدِ اسْتَعَانَ الْمُعْتَمِدُ ابْنُ عَبَّادٍ صَاحِبُ إِشْبِيلِيَةَ بِالْجَلَالِقَةِ عَلَى الْمُرَابِطِينَ اللَّمْتُونِيِّينَ، فَيُقَالُ: إِنَّ فُقَهَاءَ الْأَنْدَلُسِ أَفْتَوْا أَمِير الْمُسلمين عليا بْنَ يُوسُفَ بْنِ تَاشَفِينَ بِكُفْرِ ابْنِ عَبَّادٍ، فَكَانَتْ سَبَبَ اعْتِقَالِهِ، وَلَمْ يَقْتُلْهُ وَلَمْ يُنْقَلْ أَنَّهُ اسْتَتَابَهُ.
الْحَالَةُ الْخَامِسَةُ: أَنْ يَتَّخِذَ الْمُؤْمِنُونَ طَائِفَةً مِنَ الْكُفَّارِ أَوْلِيَاءَ لِنَصْرِ الْمُسْلِمِينَ عَلَى أَعْدَائِهِمْ، فِي حِينِ إِظْهَارِ أُولَئِكَ الْكُفَّارِ مَحَبَّةَ الْمُسْلِمِينَ وَعَرْضِهِمُ النُّصْرَةَ لَهُمْ، وَهَذِهِ قَدِ اخْتَلَفَ الْعُلَمَاءُ فِي حُكْمِهَا: فَفِي الْمُدَوَّنَةِ: قَالَ ابْنُ الْقَاسِمِ: لَا يُسْتَعَانُ بِالْمُشْرِكِينَ فِي الْقِتَالِ؛ لِقَوْلِهِ عَلَيْهِ السَّلَامُ لِكَافِرٍ تَبِعَهُ يَوْمَ خُرُوجِهِ إِلَى بَدْرٍ: «ارْجِعْ فَلَنْ أَسْتَعِينَ بِمُشْرِكٍ»
وَرَوَى أَبُو الْفَرَجِ، وَعَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ حَبِيبٍ: أَنَّ مَالِكًا قَالَ: لَا بَأْسَ بِالِاسْتِعَانَةِ بِهِمْ عِنْدَ الْحَاجَةِ، قَالَ ابْنُ عَبْدِ الْبَرِّ: وَحَدِيثُ «لَنْ أَسْتَعِينَ بِمُشْرِكٍ» مُخْتَلَفٌ فِي سَنَدِهِ. وَقَالَ جَمَاعَةٌ: هُوَ مَنْسُوخٌ.
قَالَ عِيَاضٌ: حَمَلَهُ بَعْضُ عُلَمَائِنَا عَلَى أَنَّهُ كَانَ فِي وَقْتٍ خَاصٍّ، وَاحْتَجَّ هَؤُلَاءِ بِغَزْوِ صَفْوَانَ بْنِ أُمَيَّةَ مَعَ النبي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حُنَيْنٍ وَفِي غَزْوَةِ الطَّائِفِ، وَهُوَ يَوْمَئِذٍ غَيْرُ مُسْلِمٍ، وَاحْتَجُّوا أَيْضًا بأنّ النبي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا بَلَغَهُ أَنَّ أَبَا سُفْيَانَ يَجْمَعُ الْجُمُوعَ لِيَوْمِ أُحُدٍ قَالَ لِبَنِي النَّضِيرِ مِنَ الْيَهُودِ: «إِنَّا وَأَنْتُمْ أَهْلُ كِتَابٍ، وَإِنَّ لِأَهْلِ الْكِتَابِ عَلَى أَهْلِ الْكِتَابِ النَّصْرَ، فَإِمَّا قَاتَلْتُمْ مَعَنَا، وَإِلَّا أَعَرْتُمُونَا السِّلَاحَ».
وَإِلَى هَذَا ذَهَبَ أَبُو حَنِيفَةَ، وَالشَّافِعِيُّ، وَاللَّيْثُ، وَالْأَوْزَاعِيُّ، وَمِنْ أَصْحَابِنَا مَنْ قَالَ: لَا نَطْلُبُ مِنْهُمُ الْمَعُونَةَ، وَإِذَا اسْتَأْذَنُونَا لَا نَأْذَنُ لَهُمْ؛ لِأَنَّ الْإِذْنَ كَالطَّلَبِ، وَلَكِن إِذا خرجوا مَعَنَا مِنْ تِلْقَاءِ أَنْفُسِهِمْ لَمْ نَمْنَعْهُمْ، وَرَامَ بِهَذَا الْوَجْهِ التَّوْفِيقَ بَيْنَ قَوْلِ ابْنِ الْقَاسِمِ وَرِوَايَةِ أَبِي الْفَرَجِ، قَالَهُ ابْنُ رُشْدٍ فِي الْبَيَانِ مِنْ كِتَابِ الْجِهَادِ. وَنَقَلَ ابْنُ رُشْدٍ عَنِ الطَّحَاوِيِّ عَنْ أَبِي حَنِيفَةَ: أَنَّهُ أَجَازَ الِاسْتِعَانَةَ بِأَهْلِ الْكِتَابِ دُونَ الْمُشْرِكِينَ. قَالَ ابْنُ رُشْدٍ: وَهَذَا لَا وَجْهَ لَهُ. وَعَنْ أَصْبَغَ الْمَنْعُ مُطْلَقًا بِلَا تَأْوِيلٍ.
الْحَالَةُ السَّادِسَةُ: أَنْ يَتَّخِذَ وَاحِدٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ وَاحِدًا مِنَ الْكَافِرِينَ بِعَيْنِهِ وَلِيًّا لَهُ فِي حُسْنِ الْمُعَاشَرَةِ أَوْ لِقَرَابَةٍ، لِكَمَالٍ فِيهِ أَوْ نَحْوِ ذَلِكَ، مِنْ غَيْرِ أَنْ يَكُونَ فِي ذَلِكَ إِضْرَارٌ بِالْمُسْلِمِينَ، وَذَلِكَ غَيْرُ مَمْنُوعٍ، فَقَدْ قَالَ تَعَالَى فِي الْأَبَوَيْنِ: ﴿وَاِنْ جٰهَدٰكَ عَلٰۤى اَنْ تُشْرِكَ بِىْ مَا لَيْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَاؕ وَصَاحِبْهُمَا فِى الدُّنْيَا مَعْرُوْفًا﴾. [لُقْمَان: 15]
وَاسْتَأْذَنَتْ أَسْمَاءُ النبي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بِرِّ وَالِدَتِهَا وَصِلَتِهَا، وَهِيَ كَافِرَةٌ، فَقَالَ لَهَا: «صِلِي أُمَّكِ».
وَفِي هَذَا الْمَعْنَى نَزَلَ قَوْلُهُ تَعَالَى: ﴿لَا يَنْهٰىكُمُ اللّٰهُ عَنِ الَّذِيْنَ لَمْ يُقَاتِلُوْكُمْ فِى الدِّيْنِ وَلَمْ يُخْرِجُوْكُمْ مِّنْ دِيَارِكُمْ اَنْ تَبَرُّوْهُمْ وَتُقْسِطُوْۤا اِلَيْهِمْ﴾ [الممتجنة: 8] قِيلَ: نَزَلَتْ فِي وَالِدَةِ أَسْمَاءَ، وَقِيلَ فِي طَوَائِفَ مِنْ مُشْرِكِي مَكَّةَ: وَهُمْ كِنَانَةُ وَخُزَاعَةُ وَمُزَيْنَة وَبَنُو الْحَرْث ابْن كَعْبٍ، كَانُوا يَوَدُّونَ انْتِصَارَ الْمُسْلِمِينَ عَلَى أَهْلِ مَكَّةَ. وَعَنْ مَالِكٍ تَجُوزُ تَعْزِيَةُ الْكَافِرِ بِمَنْ يَمُوتُ لَهُ.
وَكَانَ النبي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرْتَاحُ لِلْأَخْنَسِ بْنِ شَرِيقٍ الثَّقَفِيِّ، لِمَا يُبْدِيهِ مِنْ مَحَبَّةِ النَّبِيءِ، وَالتَّرَدُّدِ عَلَيْهِ، وَقَدْ نَفَعَهُمْ يَوْمَ الطَّائِفِ إِذْ صَرَفَ بَنِي زُهْرَةَ -وَكَانُوا ثَلَاثَمِائَةِ فَارِسٍ- عَنْ قِتَالِ الْمُسْلِمِينَ، وَخَنَسَ بِهِمْ، كَمَا تَقَدَّمَ فِي قَوْلِهِ تَعَالَى: ﴿وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يُّعْجِبُكَ قَوْلُهٗ فِى الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا﴾ الْآيَةَ.
الْحَالَةُ السَّابِعَةُ: حَالَةُ الْمُعَامَلَاتِ الدُّنْيَوِيَّةِ، كَالتِّجَارَاتِ وَالْعُهُودِ وَالْمُصَالَحَاتِ، أَحْكَامُهَا مُخْتَلِفَةٌ بِاخْتِلَافِ الْأَحْوَالِ، وَتَفَاصِيلُهَا فِي الْفِقْهِ.
الْحَالَةُ الثَّامِنَةُ: حَالَةُ إِظْهَارِ الْمُوَالَاةِ لَهُمْ لِاتِّقَاءِ الضُّرِّ، وَهَذِهِ هِيَ الْمُشَارُ إِلَيْهَا بِقَوْلِهِ تَعَالَى: ﴿اِلَّاۤ اَنْ تَتَّقُوْا مِنْهُمْ تُقٰىةً﴾.
اسی طرح علامہ ابن عاشور المالکی رحمه الله سورہ مائدہ کی آیت ﴿يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الَّذِيْنَ اتَّخَذُوْا دِيْنَكُمْ هُزُوًا وَّلَعِبًا مِّنَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَالْكُفَّارَ اَوْلِيَآءَ ج وَاتَّقُوا اللّٰهَ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ۔ ٥٧﴾ کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
وَإِذَا أُرِيدَ بِالْمُوَالَاةِ الْمَنْهِيِّ عَنْهَا الْمُوَالَاةُ التَّامَّةُ بِمَعْنَى الْمُوَافَقَةِ فِي الدِّينِ فَالْأَمْرُ بِالتَّقْوَى، أي الْحَذَرِ مِنَ الْوُقُوعِ فِيمَا نُهُوا عَنْهُ مُعَلَّقٌ بِكَوْنِهِمْ مُؤْمِنِينَ بِوَجْهٍ ظَاهِرٍ. وَالْحَاصِلُ: أَنَّ الْآيَةَ مُفَسَّرَةٌ أَوْ مُؤَوَّلَةٌ عَلَى حَسَبِ مَا تَقَدَّمَ فِي سَالِفَتِهَا ﴿وَمَنْ يَّتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَاِنَّهٗ مِنْهُمْ﴾ [الْمَائِدَة: 51].
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔